Psychoremedy.com

جنگ کی نفسیات: فرائیڈ کا آئن سٹائن کے نام تاریخی خط

یہ 1932 کا زمانہ تھا جب یورپ فاشزم کے اندھیروں میں ڈوب رہا تھا، تب صدی کے عظیم ترین ذہن، البرٹ آئن سٹائن نے نفسیات کے بے تاج بادشاہ، سگمنڈ فرائیڈ سے ایک گہرا سوال پوچھا: “آخر انسان کو جنگ کی لعنت سے کیسے بچایا جا سکتا ہے؟” اس سوال نے جنگ کی نفسیات پر ایک ایسی تاریخی بحث کو جنم دیا جو آج بھی اتنی ہی اہم ہے۔ فرائیڈ کا جواب صرف ایک خط نہیں، بلکہ انسانی فطرت کی گہرائیوں کا ایک بے باک تجزیہ ہے، جو اس بنیادی سوال کا جواب دیتا ہے کہ ہم جنگ کیوں کرتے ہیں۔

تشدد سے قانون تک کا سفر: جنگ کی نفسیات کا پہلا باب

 

سگمنڈ فرائیڈ اور البرٹ آئن سٹائن اپنی مطالعہ گاہ میں جنگ کی نفسیات پر تبادلہ خیال کر رہے ہیں۔
سگمنڈ فرائیڈ اور البرٹ آئن سٹائن اپنی تاریخی گفتگو میں مصروف، جہاں جنگ کی نفسیات کے موضوع پر گہرے خیالات کا تبادلہ ہو رہا ہے۔

فرائیڈ اپنے خط کا آغاز اس بنیادی نقطے سے کرتے ہیں کہ حق نے ہمیشہ تشدد کی کوکھ سے جنم لیا ہے۔ تاریخ کے ابتدائی دور میں ہر تنازعے کا فیصلہ وحشیانہ طاقت سے ہوتا تھا، جس میں ‘جس کی لاٹھی، اس کی بھینس’ کا اصول کارفرما تھا۔ ہتھیاروں کی آمد نے جسمانی طاقت کی جگہ لے لی، اور پھر طاقتور دماغ نے محض وحشی جسم کو پیچھے چھوڑ دیا، لیکن بنیادی مقصد وہی رہا: مخالف کو اس قدر نقصان پہنچانا کہ وہ ہار مان لے یا اسے مکمل طور پر ختم کر دیا جائے۔

قانون بھی درحقیقت اجتماعی تشدد ہی کی ایک منظم شکل ہے، جہاں بہت سے کمزور افراد مل کر ایک طاقتور قوت کو جنم دیتے ہیں۔ یہی اجتماعی طاقت جب مستحکم اور منظم ہو جاتی ہے تو ‘قانون’ کہلاتی ہے۔ تاہم، کوئی بھی معاشرہ مکمل طور پر برابر لوگوں پر مشتمل نہیں ہوتا۔ یہاں ہمیشہ حاکم اور محکوم، طاقتور اور کمزور موجود ہوتے ہیں۔ قانون اکثر طاقتور طبقہ اپنی گرفت مضبوط رکھنے کے لیے بناتا ہے، جس سے معاشرتی عدم مساوات پیدا ہوتی ہے۔ یہی وہ بنیادی تضاد ہے جو معاشروں میں بغاوتوں، خانہ جنگیوں اور اندرونی تنازعات کو جنم دیتا ہے۔

https://www.express.pk/story/2731439/samaji-adam-masawat-taraqi-ki-rah-me-rukawat

محبت اور موت: انسان کے اندر کی ازلی جنگ اور جنگ کی نفسیات

جنگ کی نفسیات کے ماہر، سگمنڈ فرائیڈ، اپنے مطالعہ گاہ میں ایک ڈایاگرام کے ساتھ بیٹھے ہیں۔
گمنڈ فرائیڈ اپنی مطالعہ گاہ میں جنگ کی نفسیات پر ایک ڈایاگرام کے ساتھ غور و فکر کرتے ہوئ

فرائیڈ اپنے خط کے مرکزی خیال کی طرف آتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ اس بات پر آئن سٹائن سے مکمل طور پر متفق ہیں کہ انسانوں کو جنگ کے جنون میں مبتلا کرنا حیرت انگیز طور پر آسان کیوں ہے۔ ان کے مطابق، اس کی بنیادی وجہ جنگ کی نفسیات کے دو گہرے اور متضاد نفسیاتی محرکات ہیں جو ہر انسان کے اندر موجود ہیں:

  1. زندگی کی جبلت (Eros – محبت): یہ وہ تعمیری قوت ہے جو جوڑتی ہے، تعمیر کرتی ہے، زندگی کو پروان چڑھاتی ہے، اور اتحاد پیدا کرتی ہے۔ محبت، دوستی اور ہمدردی اس کی نمایاں شکلیں ہیں۔
  2. موت کی جبلت (Thanatos – تخریب): یہ وہ تاریک قوت ہے جو توڑتی ہے، تباہ کرتی ہے، نفرت کو جنم دیتی ہے، اور ہر شے کو فنا کی طرف لے جاتی ہے۔ جارحیت، تشدد اور جنگ اسی جبلت کا اظہار ہیں۔

فرائیڈ وضاحت کرتے ہیں کہ یہ دونوں قوتیں شاذ و نادر ہی خالص شکل میں کام کرتی ہیں؛ یہ ہمیشہ ایک دوسرے میں گندھی ہوتی ہیں۔ جب کسی قوم کو جنگ کے لیے پکارا جاتا ہے، تو اس کی “موت کی جبلت” کو حب الوطنی، غیرت، اور عظیم مقاصد جیسے “زندگی بخش” نعروں کا نقاب پہنا کر بے لگام کر دیا جاتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ اکثر عظیم نظریات نے درحقیقت تباہی کی اندرونی بھوک مٹانے کا کام کیا ہے۔

امن کا راستہ: جنگ کی نفسیات کا حل

 

اگر جارحیت انسان کی فطرت کا حصہ ہے تو کیا امن ایک ناممکن خواب ہے؟ فرائیڈ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم انسان کی تخریبی جبلت کو مکمل طور پر ختم تو نہیں کر سکتے، لیکن ہم اسے قابو میں ضرور لا سکتے ہیں۔ اس کے لیے دو اہم راستے ہیں:

محبت کو فروغ دینا ایک مؤثر تریاق ہے۔ ہر وہ عمل جو انسانوں کے درمیان محبت، ہمدردی اور مشترکہ شناخت کے جذبات کو پروان چڑھائے، وہ جنگ کے خلاف کام کرتا ہے۔

(عالمی ادارہ صحت کی ذہنی صحت پر رپورٹ)

https://www.who.int/news-room/fact-sheets/detail/mental-health-strengthening-our-response

دوسرا راستہ عقل کو رہنما بنانا ہے۔ معاشرے میں ایسے آزاد سوچ رکھنے والے، نڈر اور سچ کے متلاشی دانشوروں کا ایک طبقہ پروان چڑھایا جائے جو عوام کو محض جبلتوں کے رحم و کرم پر چھوڑنے کے بجائے عقل اور منطق کی بنیاد پر رہنمائی کرے۔

(مزید پڑھیں: “تنقیدی سوچ کی اہمیت)

/blog/tanqeedi-soch-ki-ahmiyat

آخری امید: تہذیب کا سفر اور جنگ کی نفسیات کا انجام

 

فرائیڈ اپنے خط کا اختتام ایک گہری اور پرامید بات پر کرتے ہیں: “آخر ہم اور آپ جیسے لوگ جنگ سے اتنی شدید نفرت کیوں کرتے ہیں؟ کیا یہ غیر فطری نہیں؟” ان کا جواب یہ ہے کہ تہذیب کا ہزاروں سالہ سفر ہماری نفسیات کو اندر سے بدل رہا ہے۔ جو چیزیں ہمارے وحشی آباؤ اجداد کے لیے خوشی کا باعث تھیں، وہ آج ہمارے لیے ناقابلِ برداشت ہیں۔ تہذیب ہم سے ہماری حیوانی جبلتوں کی قربانی مانگتی ہے اور بدلے میں ہماری عقل کو مضبوط کرتی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ہم جنگ سے اس لیے نفرت کرتے ہیں کیونکہ اب ہماری فطرت اس کی بربریت کو قبول نہیں کرتی۔ یہ صرف ایک نظریاتی مخالفت نہیں، بلکہ ہماری روح کی گہرائیوں سے اٹھنے والی ایک آئینی عدم برداشت ہے۔

“یہ کہنا ناممکن ہے کہ باقی تمام انسان کب اس مقام پر پہنچیں گے، لیکن شاید یہی ہماری آخری امید ہے: تہذیب کا یہ سفر اور مستقبل کی جنگوں کی تباہ کاریوں کا خوف، یہ دو قوتیں مل کر شاید ایک دن انسان کو جنگ کی نفسیات کے اس تاریک پہلو سے ہمیشہ کے لیے نجات دلا دیں گی۔”

(حوالہ جاتی تحقیق):ہیومن اینیمل بانڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ

https://habri.org/research/

Author: Prof. Osama Raza

Reviewed: Pakistan Psychology Today, Psychoremedy 

 

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top