از قلم : اسامہ رضا
رگِ سنگ سے ٹپکتا وہ لہو کے پھر نہ تھمتا
جسے غم سمجھ رہے ہو یہ اگر شرار ہوتا ہے
لغات:
رگِ سنگ __پتھر میں سے
شرار ___ چنگاری آگ
شرح ___
غالب نے اس شعر میں حسنِ تعلیل کی صنعت کا استعمال اس خوبصورتی اور قرینے سے کیا ہے کے اس شعر کی تعریف کرنا بھی امکانِ ممکنات سے ماورا ہوگیا ہے۔ اس شعر کو گر حسنِ تعلیل کا اعلیٰ نمونہ قرار دیا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔
غالب کہتے ہیں کے جس طرح میرے دل میں غم بھرا ہے اور جس ہمت و حوصلے سے میں نے غم کو دل میں دبایا ہوا ہے اگر دل کی جگہ پتھر ہوتا تو وہ بھی غم کو نہیں سہہ پاتا اور اس کے اندر سے بھی خون اس طرح رواں ہوجاتا کے کبھی تھمتا ہی نہیں ۔
لیکن یہ شعر اتنا سادہ فہم بھی نہیں جیسا کے شارحین نے اس بیان کیا ہے۔
اس شعر کو سمجھنے کیلئے کچھ تمہید باندھ لیتے ہیں۔ غم کی تاثیر آگ سی ہوتی ہے جو انسان کے اندر ایک آگ سی لگادیتی ہے اور جس قدر اس غم کے شعلے کو دبا کر رکھا جائے اس قدر انسان اندر سے بھسم ہوتا جاتا ہے ۔ اب شعر کو اسکی الفاظی جادوگری سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں چونکہ شعر میں صنعت حسنِ تعلیل کا استعمال کیا گیا ہے جس میں غم کو شرار سے تشبیہ دی گئ ہے یعنی آگ سے ۔
غالب کا کہنا ہے کے اگر میرے دل کی جگہ پتھر (سنگ) ہوتا اور اسکو سہنے کیلئے آگ میں جلایا جاتا تو پتھر بھی پگھل کر خون کی طرح بہنے لگتا۔
میں قارئین کی توجہ ایک جیولوجیکل عمل کی طرف دلوانا چاہتا ہوں کے کس طرح اگر پتھر کو شدید حرارت و دباؤ کا سامنا کرنا پڑ جائے تو پتھر پگھل کر بہنا شروع کردیتا ہے جس جیالوجی کی زبان میں میگما کہا جاتا ہے۔
آج چونکہ ہم جانتے ہیں کے جب پتھر کو شدید دباؤ اور حرارت کا سامنا ہو تو وہ پگھل کر میگما میں تبدیل ہو جاتا ہے جس کا رنگ بھی سرخ ہوتا ہے ۔
خدا جانے اس زمانے میں غالب اس جیالوجیکل فیکٹ کو جانتے تھے یا نہیں یا یہ غالب کی وجدانی قوت تھی کے اس نے کس اس حقیقت کو اپنے وجدان سے اس خوبصورت انداز میں بیان کردیا کے قاری غالب کے کمالِ حسنِ مشاہدہ یا کمالِ وجدان کا معترف ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔
اسامہ رضا