سگمنڈ فرائیڈ ( تحلیل النفسی کا بانی )
تحریر : اسامہ رضا
قسط : نمبر 1
علم ِ نفسیات کے بغیر شرابِ شعور اور جامِ علم انسانی جستجو کی تشنگی کو مٹانے کیلئے ناکافی رھے ہیں ۔ یونانی فلاسفرز سے لیکر عصرِ حاضر کے سائنسدانوں نے لاکھوں ایجادات کیں اور کڑوڑوں مقفل راز آشکار کیے اتنے بڑے علمی انقلاب کے بعد بھی انسانی جستجو کو طمانیت و تشفی کی دولت میسر نہیں آسکی تھی۔ قدیم علوم سے لیکر عصرِ حاضر کی تحقیقات و افکار میں ایک بات مشترکہ تھی کے انسان کی ساری تحقیق کا مرکز و محور مادہ ( Matter ) تھا اسی مادے کو کبھی فزکس کے قوانین کی روشنی میں سمجھنے کی سعی کی جاتی تو کبھی اسکو کیمسٹری کے قوانین کی مدد سے سمجھنے کی کؤشش کی جاتی تؤ کبھی اسے بیالوجی کے تناظر میں پرکھا و سمجھا جاتا ۔ تقریباً تمام علوم و افکار مادے اور اسکے اثرات و تغیرات و تعلقات کے گرد محوِ گردش تھے۔ حتیٰ کے انسانی رویوں کو طبعی بنیادوں پر سمجھنے کی کوشش کی جاتی اور علمِ نفسیات کی سمجھ بوجھ کے بغیر انسانی رویوں پر طبعی بنیادوں پر ایسے قوانین کو مرتب کیا گیا جو انسانی جبلت و سرشت کے منافی اور فطرت کے خلاف تھے ۔ شعورِ نفسیات کی کمی کی وجہ سے ذہنی عارضوں کو یا تو طبعی علتوں کے ساتھ منسوب کیا جاتا تھا یا اسکا تعلق آسیب و جنات سے جوڑا جاتا تھا۔ طبی علوم اپنی حدود قیود کی وجہ سے نفسیات کے میدان میں جھانکنے سے قاصر تھے ایسے میں سگمنڈ فرائیڈ نے شعورِ نفسیات کا ایسا پر نور چراغ روشن کیا جس نے نفسیات کے تاریک ایوانوں کو روشن کیا۔ فرائیڈ نے انسانی برتاؤ و رویوں کو موضوع بنایا اور اس پر تحقیق کی۔ انسانی رویوں پر گہری تحقیق اور فرائیڈ کے عمیق افکار نے انسانی جبلتوں کا منبع و مصدر اور اس سے ماخوذ انسانی رویوں کو آشکار کیا۔ کہا جاتا ھے انسانی غرور کو تین بڑے دھچکے سائنس نے دیے ۔ جس میں سے سب سے پہلا دھچکا گلیلیو اور کوپرنیکس نے یہ یہ ثابت کر کے دیا کے زمین کائنات کا مرکز نہیں ہے بلکہ زمین سورج کے گرد محوِ گردش ایک سیارہ ہے۔ اس سے قبل مذہبی تعلیمات میں زمین کو دھرتی ماں اور کائنات کے مرکز کا مقام حاصل تھا۔ سائنس کی اس دریافت نے نہ صرف زمین کو اسکی اصل حیثیت سے روشناس کروایا بلکہ اسکے اس غرؤر کو بھی پارہ پارہ کردیا۔ دؤسرا بڑا دھچکا چارلس ڈارون کے نظریہ ارتقا کی دین تھا۔ نظریہ ارتقاء کے مطابق انسان کوئی آسمان سے اتری ہوئی مخلوق نہیں بلکہ اسکی تشکیل اسی زمین پر اپنے کمتر جانوروں سے ہوئی ہے جس میں انسان کا شجرہ نسب بندروں سے جا ملتا ہے ۔ جبکہ مذہبی تعلیمات کے مطابق انسان بہشت سے زمین پر اتارا ہوا نائب ہے۔ تیسرا بڑا دھچکا جس نے انسانی غرور اور ماضی کے باطل نظریات و قوانین کو ایک ساتھ زمین بوس کردیا وہ سگمنڈ فرائیڈ کی دین تھا۔ فرائڈ کے نظریات نے جنسیت کو انسانی شخصیت سے ماخوذ گردانا ۔ اور انسانی جبلت میں اسکا مصدر و مرکز بتایا جبکہ اس سے قبل جنسیت و شہوت کو تفریق شر و زہد کے لیے استعمال کیا جاتا تھا ۔ یعنی نیکی و گناہ میں تفاوت کی دیوار جنسیت کو سمجھا جاتا تھا۔ جنسیات کو برا گردانا جاتا تھا اسکے عوض جنسی و شہوانی خواہشات کو دبانے والے کو نیک و پرہیزگار تسلیم کیا جاتا تھا۔ اسکی مثال عیسائیت میں راہبانیت کی صورت میں ملتی ہے ۔ رہبانیت کے ماننے والے اپنی جنسی خواہشات کو دبا کر اس عمل کو خدا کی خوشنودی و رضا کا حصول تصور کیا کرتے تھے۔ فرائیڈ نے جنسی خواہشات کو فطرتِ انسانی کا لازمی جز اور اسکو دبانے کے منفی نتائج کے سلسلے میں جنم لینے والی نفسیاتی بیماریوں کو آشکار کیا۔ اگرچہ فرائڈ کے نظریات جدید دور میں بہت سی خلاؤں و خطاؤں کے حامل ہوئے اور اس میں ترمیم و تغیرات کے ساتھ ساتھ سائنسی سرزمین سے متصادم بھی نظر آئے ۔ لیکن متعدد اعتراضات کے باوجود بھی فرائڈ نے تحلیل النفسی کیلیئے جو نظریات پیش کیے اس سے نفسیات کے متعدد مضمر پہلو منظرِ عام پہ آئے اس لیے نفسیات کا ذکر فرائڈ کے بغیر آج بھی ادھورا ھے۔
ابتدائی حالات
فرائیڈ کا جنم 6 مئی 1856 کو جرمن کے ایک ٹاؤن فرائبرگ میں ہوا اس وقت وہاں کی آبادی چند ہزار افراد پر مشتمل تھی ( 8500 ) ۔ فرائیڈ کا تعلق ایک یہودی خاندان سے تھا اور اسکے والد یہودی تعلیمات کے بڑے سخت پیروکار تھے جبکہ معاشی سرگرمیوں میں وہ اون ( Wool ) کے تاجر تھے ۔ جیکب نے تین شادیاں کر رکھیں تھیں جس میں پہلی شادی سے انکے دو بچے تھے ایمونل اور فلپ جبکہ سگمنڈ فرائڈ جیکب کی دوسری بیوی ایمالیا کی کھوکھ سے جنم شدہ تھا۔
فرائیڈ کی پیدائش کے وقت اسکے باپ کی عمر تقریباً اکتالیس سال اور اسکی ماں کی عمر صرف اکیس سال تھی اس طرح فرائیڈ کی ماں اپنے خاوند سے بیس سال چھوٹی تھی۔ سارا دن معاشی سرگرمیوں میں مشغول رہنے والا جیکب جب گھر پہنچتا تو اپنی بیوی سے ویسے جذبات کا اظہار نہ کر پاتا جس کی توقع اسکی جوان بیوی اس سے رکھتی تھی . ایمونل جو کے فرائڈ کا سوتیلا بھائی تھا اسکی ماں کا ہم عمر لگتا تھا جب کے گھر میں موجود ایک دایہ اسکے باپ کی ہم عمر تھی اس لحاظ سے فرائڈ کو لگتا تھا کے اصؤلی طور پر اسکے سوتیلے بھائی کو اسکی ماں کا خاؤند اور دایہ کو جیکب کی بیوی ہونا چاہیے تھا۔ چونکہ جیکب کا گھر میں رعب و دبدبہ اس قدر تھا کے باپ کے خوف سے چھوٹی عمر میں فرائڈ بستر پر ہی رفعِ حاجت کر دیا کرتا تھا۔ خوف و دہشت اور تحکم کا ایک خوفناک تصور فرائڈ کے ذہن میں راسخ ہوچکا تھا۔ اس ساری صورتحال کے باوجود بھی فرائڈ کی ماں شفقت و محبت کا سرچشمہ تھی۔ فرائڈ اپنی ماں سے بہت محبت کرتا تھا اور اسکی ماں بھی ہمہ وقت فرائیڈ کے ساتھ محبت و الفت کا اظہار کرتی رہتی تھی۔ لیکن اب فرائڈ کی ماں نے ایک اور بچے جولیس کو جنم دے دیا تھا۔ فرائڈ جب ہمہ وقت ماں کو جولیس کے پیار اور اسکو دودھ پلانے میں مگن رہتی تو فرائڈ اس صورتحال سے حسد و رقابت کا شکار ہوگیا ۔ فرائڈ پر عدم توجہ اور جولیس کا ماں کے ساتھ پیار فرائڈ پر بہت گراں گزرتا تھا ۔ حسد و رقابت اور جلن کے جذبات فرائڈ کو حسد کی آگ میں جلاتے رہتے تھے۔ لیکن جولیس کی بچپن میں ہی وفات ہوگئ جس پر فرائڈ بہت شرمندہ اور ضمیر کی آواز کی وجہ سے بہت نادام ہوا اور اس صدمے نے اسکے ذہن پر ان مٹ نقوش چھوڑے۔
ابھی فرائیڈ انہی الجھنوں اور خاندانی کشمکش کا شکار تھا کے فرائیڈ کی ماں نے ایک بچی کو جنم دے دیا ۔ اب اینا ( Anna ) فرائڈ اور اسکی محبت کے درمیان ایک دیوار بن گئ۔ لیکن اب حسد و رقابت کے جذبات کو قابو کرنے کے علاوہ اسکے پاس کوئی دوسرا حل نہیں تھا۔ اسلے بعد روزا اور ڈولفی کی پیدائش نے فرائیڈ کو اور الجھنوں میں ڈال دیا۔ فرائیڈ اور اسکی ماں کے درمیاں یہ غیرمعمولی چاہت اور وابستگی اسکے مشہورِ زمانہ الجھاؤ ( Oedipus complex ) کی بنیاد بنا جبکہ اسکی بہنوں اور باپ کے درمیان لگاؤ اور محبت الیکٹرا کملیکس کی وجہ بنا ( ElectraComplex ) ۔
فرائبرگ میں چونکہ یہودیوں کی تعداد بہت قلیل تھی اور صنعتی انقلاب نے دستکاری کا قلع قمع کردیا تھا اور یوں بھی فرائبرگ میں یہودی زیرِ عتاب تھے لہٰذا جیکب نے ہجرت کو ترجیح دی اور فرائبرگ کو چھوڑ کر وی آنا ( Vienna ) میں چلے گئے۔ اس دوران انہیں ٹرین میں سفر کرنے کا بھی موقع ملا جس نے فرائڈ کے ذہن میں ریل گاڑی پر سفر کرنے کا عجیب سا خوف طاری کردیا ۔ اور وہ ریل گاڑی میں سفر سے ڈرتا رہا اگرچہ بعد میں اس نے تحلیل النفسی کے اطلاق سے اپنا علاج کر کے اس خوف سے چھٹکارا حاصل کرلیا۔ اس دورآن ایک عجیب چیز یہ ہوئی جس کا ذکر فرائڈ خود کرتے ہیں کے اس نے دورانِ سفر اپنی ماں کو برہنہ حالت میں دیکھ لیا جو اسکے ذہن کو بری طرح متاثر کر کر گیا اور یہ چیز اسکے ذہن میں عجب کشمکش کو جنم دے گئ۔
فرائڈ چونکہ بہن بھائیوں میں سب سے بڑا تھا اس لیے معاشی حالات بگڑنے پر اسکو بہت ذہنی دباؤ کا شکار رہنا پڑا جس نے اسکے ذہن کو جنجھوڑ کے رکھ دیا اسکے ساتھ ساتھ اپنی ماں کے ساتھ بے پناہ لگواؤ اور محبت اسکے اندر باپ کے ساتھ ساتھ بہن بھائیوں کیلئے بھی حسد کے جذبات پنہاں رکھتا تھا۔ القصہ مختصر فرائڈ بچپن سے ہی ایسی الجھنوں کا شکار تھا کے اس نے بچپن سے لڑکپن اور لڑکپن سے جوانی کا سفر بطورِ ذہنی و نفسیاتی مریض طے کیا۔
تعلیم
فرائڈ نے ابتدائی تعلیم ہائی سکول سے حاصل کی ۔ فرائڈ بچپن سے ہی بڑا ذہین و فہیم اؤر گہری سوچ کا مالک تھا ۔ سکول میں اسے اپنی غیرمعمولی ذہنی صلاحیتوں کی وجہ سے ایک خاص مقام حاصل تھا۔ اسی وجہ سے فرائیڈ کو اپنی الجھنوں اور نفسیاتی مشکلوں کا حل ادب و سائنس میں ہی نظر آرہا تھا اور معاشی حالات کے خلاف جنگ کیلئے ڈاکٹری سے بہتر کوئی پیشہ اسکی نظر میں تھا نھیں ۔ فرائڈ نے سکول کے بعد ایک وی آنا میں قائم یونیورسٹی کے میڈیکل سکول میں داخلہ لے کر اپنے مستقبل کی امیدوں کے بیج کاشت کیے۔ فرائڈ کے اندر مطالعہ کا شوق اسکو نفسیات فلاسفی , سائنس , ادب کسی بھی علم سے دور نہ رکھ سکا۔ جہاں بھی اسکو کوئی علمی نوشتہ ملتا فرائیڈ اس سے استفادہ کیے بنا رہ نہ پاتا۔ مطالعے کے شوق نے فرائیڈ کو ڈارون اور شیکسپیئر کا متوالہ بنا دیا تھا۔ فرائیڈ نے اپنے اس شوق کی تسکین کیلئے نظریہ ارتقاء کا بڑا گہرا مطالعہ کر رکھا تھا اور فلسفے کی آمیزش نے اسکے ذہن کے اندر متعدد نئے اور عجیب نفسیاتی سوالوں اور اسکے ممکنا جوابات کو جنم دے دیا تھا۔
گردشِ زمان کے چکروں نے فرائیڈ کو اسکی خوابوں کی سر زمین انگلینڈ میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع دیا فرائڈ جب انگلینڈ سے تعلیم حاصل کر کے واپس آیا تو اسے فعلیات ( Physiology ) پر ایک ماہر فزیلالوجسٹ کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔اسکے بعد فرائڈ نے وینا یونیورسٹی میں میڈیکل کی ڈگری کے ساتھ فلسفہ کے کچھ کورس بھی پڑھے اور علمِ منطق پر خاطر خواہ دسترس حاصل کر لی۔میڈیکل میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے بعد فرائڈ کو نوکری کی تلاش تھی لیکن جس فزیلاجوسٹ کیلئے اس نے چھ سال کام کیا اس نے فرائڈ کو اپنے کلینک میں جاب کرنے کی اجازت نہیں دی۔ اس طرزِ تعلق پر فرائڈ کے ذہن پر گہرے اثرات مرتب ہوئے لیکن بالاآخر اسکو وی آنا کے ایک ہسپتال میں نوکری مل گئ جس میں اسے ایک مشہورِ ماہر طب نفسی کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا جس سے فرائڈ نے بہت کچھ سیکھا اسکے بعد فرائیڈ نے قلیل تنخواہ اور آگئے بڑھنے کی جستجو میں پیرس جانے کا انتخاب کیا اور یہاں سے فرائیڈ پر قسمت کی دیوی مہربان ہوگئ ۔ فرائیڈ کو مشہور و معروف ماہر طب نفسی شارکوٹ کے زیرِ سایہ کام کرنے کا موقع ملا۔ فرائیڈ جس ہسپتال میں کام کرتا تھا وہ نفسیاتی مریضوں کیلئے کافی معروف تھا۔ شارکوٹ ہسٹیریا اور شیزوفرینیا اور نفسیاتی مریضوں کا علاج تنویم ( ہپناٹزم ) سے کیا کرتا تھا جبکہ باقی ڈاکٹرز کا خیال تھا کے ہسٹیریا رحم مادر سے جڑی کوئی بیماری ہے جبکہ شارکوٹ مریضوں پر ہپناٹائزم کے زریعے مصنوعی نیند طاری کر کے ان سے گفت و شنید کے کرتا اور جب نیند کا غلبہ ٹوٹتا تو مریض بہت حد تک آفاقہ محسوس کرتے ۔ اس مشاہدے پر غور و فکر نے فرائیڈ کے ذہن میں تحلیل النفسی کا چراغ روشن کیا کے ہسٹیریا کوئی رحم مادر سے جڑی بیماری نہیں بلکہ یہ نفسیاتی الجھاؤ ہے نہ عضویاتی مسئلہ ھے۔
فرائیڈ نے ہپناٹائز کے ذریعے کئ لوگوں کا علاج کیا ۔ لیکن اس طریقہ علاج میں فرائڈ کو کافی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا تھا متعدد ایسے مریض ہوتے تھے جن کو ہپناٹائز کرنا ممکن نہیں ہوتا تھا اور مزید یہ کے تمام مریضوں کے اندر ڈھکی اور چھپی خواہشات و خوف کو مصنوعی نیند کے ذریعے باہر نکالنا مشکل تھا ۔ فرائڈ نے اس طریقہ علاج کو ترک کر کے مریض سے تحلیل النفسی کے طریقہ کار کی بنیاد رکھی جس میں وہ مریض کے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر ہلکہ ہلکہ دباتا تھا اور اسکے لاشعور میں پنہاں خواہشات اور دبے خوف کو شعور تک لانے کی سعی کرتا تھا ۔ فرائڈ بچین سے شروع کرتا اور تمام واقعات خصوصاً جنسیات سے جڑے واقعات کو خصوصی کھنگالنے کیلئے مریض سے گفت و شنید کرتا اسکو اپنے اس طریقہ علاج میں بہت کامیابی ملی اور اس نے ایک کتاب بھی لکھی جس میں مدلل اور منطقی و سائنسی طور پر ہسٹیریا کی بنیادیں نفسیاتی ثابت کیں اور اس طرح ہسٹیریا کے بارے میں پائے جانے والے عضویاتی مسائل کے اوہام کا بت ٹوٹا جس سے فرائیڈ کا چرچا ہونے لگا تھا۔ اسی دوران فرائیڈ نے کوکین کے ذریعے علاج اور متعدد کتابیں اور کئ تحریریں لکھیں جن کو فی زمانہ شہرت تو ملی ہی جبکہ آج تک فرائیڈ کی خدمات نفسیات کا جزوِ لاینفک ہیں ۔