تحریر : اسامہ رضا
یہ 1799 کی بات ھے جب کچھ شکاریوں کی نگاہوں نے ایک جنگلی لڑکے کو جنوبی فرانس کے جنگل میں جھاڑیوں سے گزرتا دیکھا یہ لڑکا عجیب خدوخال میں ڈھلا جانوروں سی حالت میں تھا۔ شکاریوں نے اس واقع کو بروقت رپورٹ کردیا بلآخر فوری ایکشن کی بنا پر اس جنگلی لڑکے کو جنگل سے برآمد کرلیا گیا۔
پیرس میں یہ خبر جنگل میں آتش کی طرح پھیل گئ اخباروں میں جنگلی لڑکے کی تصویروں نے تجسس کی ایک فضاء کو جنم دے دیا۔ سوسائٹی آف آبزرور آف مین ( Society of Observer of Man ) جس کی تشکیل ابھی حال میں ہی قیام میں آئی تھی ۔ سوسائٹی کے پینل نے اس جنگلی لڑکے کے نفسیاتی مطالعہ اور تجربات کے غرض سے اپنی تفویض میں لے لیا۔
اس جنگلی لڑکے کی عمر قریباً بارہ (12 ) سال تھی ۔ 1800 میں اس جنگلی لڑکے کو ایک مخصوص پنجرے میں مقید کرکے پیرس میں لایا گیا۔ جہاں ایک ہجوم اس کو دیکھنے کا منتظر تھا ۔ جنگلی لڑکا پنجرے میں گھبراہٹ و بے حسی کے عالم میں اپنے گرد انسانوں کو دیکھ کر محوِ حیرت و ساکت بیٹھا رہتا تھا۔
پینل نے جنگلی لڑکے نفسیاتی تجزیے اور اسکو انسانوں کے حلیے میں ڈھالنے کی کاوشوں کے بعد اعلانیہ طور پر اسکو incurable idiot قرار دے دیا ۔ لڑکا جانوروں کی طرح چاروں بازوں پر حرکت کرتا , اپنے کپڑوں کو چباتا نوچتا اور اونچی اونچی غراتا پینل کے فزیشن بلاآخر اپنی کوششوں اور کلیوں کے باوجود خود کو ناکام پا چکے تھے ۔
انسانوں کی نفسیاتی نشوونما اور پروان کے ماحول کے اثرات اس جنگلی لڑکے کے تجزیے کے سے روز روشن کی طرح واضح تھے۔ پینل کی ہار اور ناکامی کے باوجود بھی اسی پینل کے ایک اسسٹنٹ جین مارک گاسپرڈ
( J ean-Marc-Gaspard )
نامی فزیشن کا ابھی تجسس رفع نہیں ہوا تھا اور نہ ہی ہمت ختم ہوئی تھی۔ جین نے اس جنگلی لڑکے کو اپنی تفویض میں لیکر اپنی سی کرنے کی ٹھان لی اور اسکو جنگلی رویوں سے ایک انسان کے روپ میں ڈھالنا تھا۔ اسکو اس لڑکے کو زبان و بیان سکھا کر انسانی لرننگ کے طریقوں کا بھی تجربہ کرنا مقصود تھا۔
جین نے اس جنگلی لڑکے کو وکٹر کا نام دیا اور اسکی تعلیم و تربیت کیلئے جوش و خروش سے جتن کرنے لگا۔ جین نے اسکی معاشرے سے خلوت نشینی کو اسکے رویوں اور موجودہ حالت کی وجہ قرار دیکر اس مفروضے کو بنیاد بنا کر اپنے مشن کا آغاز کیا۔
جین کے ہاں پانچ مقاصد تھے ۔
۱) وکٹر کے اندر معاشرتی رویوں کو پیدا کرنا اور یہ احساس دلانا کے یہ زندگی اسکی پرانی زندگی سے بہتر اور پر لطف ہے۔
۲) وکٹر کی اعصابی حساسیت (Nervous sensibility ) کو انرجیٹک سمولشن اور ایموشن سے متحرک کرنا .
۳) وکٹر کے تخیلات کو نئ ضروریات اور حاجات کی بناءپر وسعت دینا اور اسکے سوشل کنٹیکٹ کو بڑھانا ۔
۴) اسکو ضروریات و حاجات کی بناء پر زبان اور چیزوں کے نام سکھانا ۔
۵) اور وقت کے ساتھ ساتھ اسکو ضروریات اور حاجات کے چھوٹے موٹے کام از خود کرنے سکھانا۔
جین نے مندرجہ بالا مقاصد کی تکمیل کیلئے اور وکٹر کی بحالی ( Rehabilitation ) کیلئے انتھک محنت کی اور بلاآخر کافی حد تک اپنے مقاصد کی جزوی تکمیل میں کامیاب رہا۔
وکٹر اپنے آپکو صاف اور کپڑوں میں ملبوس رکھنا سیکھ چکا تھا۔وہ اپنے ہاتھوں سے کھانا کچھ احکامات پر عمل کرنا حتٰی کے کچھ الفاظوں کو پڑھنا اور لکھنا سیکھ گیا ۔
لیکن وکٹر زبان و بیان سیکھنے میں ناکام رہا ۔ وہ پیار و قربت کے رویوں کا اظہار کرنا سیکھ تو گیا مگر اکثر اسکا رویہ حد درجہ غیر متوقع اور غصیلی ہوتا جس میں وہ اونچی اونچی چلانا شروع کردیتا اور غصّے سے غراتا۔
اشیاء میں تمیز و تخصیص کے شعور کا عالم یہ تھا کے وہ اکثر اپنے کپڑے , چادر حتٰی کے کرسی کو چبانے اور نوچنے لگ جاتا ۔ مسلسل پانچ سال کی جدوجہد کے بعد جین نے اپنی امید کھودی ۔
گویا وکٹر کی جس ماحول میں نفسیاتی نشوونما اور پرورش ہوئی تھی ۔ وہ کبھی اس ماحول سے مکمّل طور پر باہر نہیں آسکا۔ اسکے ماحول اور جنگلی ماحول کی چھاپ مرتے دم تک اسکے زہن پر نقش رہی۔
وکٹر 1828 میں چالیس سال کی عمر میں وفات پاگیا۔
اس واقعے کے تناظر میں آپ نفسیاتی نشوونما اور اسکے ماحول کے اثرات کی اہمیت کا اندازہ لگاسکتے ہیں ۔
گویا دورِ طفولیت اور لڑکپن جو عادات و رویوں کی چھاپ ذہن پہ لگاتا ہے وہ رہتے دم تک انسان کے ساتھ کسی نہ کسی طور پر رہتی ہے۔
ازراہِ تفنن ہی سہی اس واقعے کو پڑھ کے یوں لگتا ھے وکٹر جین سے بزبانِ غالب کہتا ہوگا
دوست غمخواری میں میری سعی فرمائیں گے کیا
زخم کے بھر جانے تلک ناخن نہ بڑھ جائیں گے کیا
گر کیا ناصح نے ہم کو قید اچھا یوں سہی
یہ جنونِ عشق کے کے انداز چھٹ جائیں گے کیا
For references
Plucker, Jonathan (2007). “Jean-Marc Gaspard Itard (April 24, 1775 – July 5, 1838) French Physician”. Human Intelligence. Indiana University. Archived from the original on 2011-11-25. Retrieved 2011-10-30.
Michel Gardère, La Femme Sauvage, Place Des Éditeurs, 2011, p. 47.
Jean Marc Gaspard Itard, Victor de l’Aveyron, Éditions Allia, 1994, p. 7.
François Dagognet, Le docteur Itard entre l’énigme et l’échec, preface by Jean Itard, Victor de l’Aveyron, éditions Allia, Paris, 2009, p. 7.
Jean Marc Gaspard Itard, Victor de l’Aveyron, Éditions Allia, 1994, p. 8.
Natacha Grenat, Le douloureux secret des enfants sauvages, La Compagnie Littéraire, 2007, p. 102.
Lane, Harlan (1976). The Wild Boy of Aveyron. Cambridge: Harvard University Press.
Itard, Jean-Marc-Gaspard (1962). The Wild Boy of Aveyron. New York: Meredith Company.
Shattuck, Roger (1980). The Forbidden Experiment. New York: Farrar Straus Giroux.
Séguin, Édouard (1866). Idiocy: and Its Treatment by the Physiological Method. W. Wood & Company. p. 17.
Benzaquén, Adriana S. (5 April 2006). Encounters with Wild Children: Temptation and Disappointment in the Study of Human Nature. MQUP. p. 163. ISBN 978-0-7735-8085-5.
Yousef, Nancy (2001). “Savage or Solitary?: the Wild Child and Rousseau’s Man of Nature”. Journal of the History of Ideas. 62 (2): 245–263. doi:10.1353/jhi.2001.0021. S2CID 171035302.
Ingalls, Robert P. (1978). Mental retardation: the changing outlook. New York: Wiley. p. 86. ISBN 0-471-42716-0.
Winch, Christopher (1996). “Rousseau on Learning: a Re-evaluation”. Educational Theory. 46 (4): 415–428. doi:10.1111/j.1741-5446.1996.00415.x.
Carrey, Normand J. (1995). “Itard’s 1828 Memoir on ‘Mutism Caused by a Lesion of the Intellectual Functions’: a Historical Analysis”. Journal of the American Academy of Child & Adolescent Psychiatry. 34 (12): 1655–1661. doi:10.1097/00004583-199512000-00016. PMID 8543537.
Malson, L (1964). Les enfants sauvages. Mythe et réalité [Feral children: Myths and reality]. Collection 10/18 (in French). Paris: Union générale des éditeurs. p. 234. cited by Gaudreau, Jean; Canevaro, Andrea (1990). L’éducation des personnes handicapées hier et aujourd’hui [The education of handicapped people, yesterday and today] (in French). Les publications de la faculté des sciences de l’éducation – Université de Montréal. p. 71. ISBN 2-920298-67-4.
Hammond, Claudia (2008-11-30). “The Wild Boy of Aveyron”. Case Study. BBC Radio 4.
Dawson, Jill. “Interview in The Big Issue on Wild Boy”. Archived from the original on 2009-02-02. Retrieved 2008-11-30.
Aroles, Serge (2007). L’enigme des enfants-loups: une certitude biologique mais un déni des archives, 1304-1954 [The Mystery of the Wolf-Children] (in French). Editions Publibook. ISBN 978-2-7483-3909-3.
“Survivre avec les loups : la supercherie”. Lefigaro.fr. Retrieved 2014-03-06.
Shields, Rachel (2008-03-01). “Adopted by wolves? Bestselling memoir was a pack of lies”. The Independent. Retrieved 2014-03-06.
Bettelheim, Bruno (1959). “Feral Children and Autistic Children”. American Journal of Sociology. 64 (5): 455–467. doi:10.1086/222541. ISSN 0002-9602. S2CID 144015209.