Author name: psychoremedy78@gmail.com

psychology

Psychological disorders and love-Osama Raza – محبت اور نفسیاتی بیماریاں

( سائیکالوجی کی روشنی میں ) محبت اور نفسیاتی بیماریاں  تحریر : اسامہ رضا محبت کو بیماری اور پاگل پن تصور کرنا کوئی نئی بات نہیں دنیا کے ہر ادب میں محبت کو جنون اور پاگل پن کے ساتھ تعبیر کر کے ذہنی عارضہ قرار دیا گیا ہے۔  جس میں دل عقل کو ماؤف کردیتا ہے اور انسان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سلب ہوجاتی ہے ۔ قدیم زمانہ میں کم علمی کی وجہ سے اسکے اصل محرکات وجوہات کو سمجھنا غیر ممکن تھا۔ لیکن غالب نے آج سے کئ سو سال پہلے کہہ تھا  بلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے گل  کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا  غالب کا عشق کو دماغی خلل کہنا   درست اور سائنسی  محسوس ہوتا ہے ۔غالب نے دیوانگی کی نیوروسائنس کو جس اختصار سے مصرعے میں سمیٹا واقعی حیران کن اور قابلِ صد تحسین ہے۔   آج نہ صرف محبت کو دماغی عارضے  سےتعبیر کیا جاتا    ہے بلکہ اس بیماری کے تدارک کیلیئے سائیکالوجسٹ  ادوایات بھی تجویز کرتے ہیں  ۔ آج اس عارضے کو اس  سنجیدگی سے لیا گیا ہے اور مارکیٹ میں Anti love ڈرگز بھی ذہنی خلشوں کے تدارک کیلئے دستیاب ہیں ۔ عشق و محبت کے جذبات جب جنونیت کی سرحدوں کو چھوتے ھیں اور  فکر و وہم کی گہرائیاں خوف و ڈر کے مقفل ایوانوں کو پہنچتی ہیں تو ذہنِ انسانی میں وہ انقلاباتی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں کے عشاق موت کو گلے لگاتے وقت ایک پل بھی سوچنا گوارہ نہیں کرتے۔ محبت کی سرزمین سے سر اٹھانی والی خوفناک بیماریوں کی درجہ بندی کا رخ کیا جائے تو سائیکالوجسٹ ان بیماریوں کو کچھ یوں ترتیب دیتے ہیں ۔  1) Erotomania 2) Obsessive Love 3 ) Attachment Disorder 4) Relationship OCD (ROCD) 1 ) Erotomania   عشق و محبت میں اکثر انسان یہ تصور کرنے لگتے ہیں ان کا محبوب ان سے زیادہ محبت نہیں کرتا جبکہ انکی دیوانگی کی شدت اپنے محبوب سے بہت زیادہ ہے ۔ یہ شکوہ جذبات کی سیڑھیوں سے پروان چڑھتا ہے اور اکثر اہلِ الفت و محبت کو پریشانی و پژمردگی کے زندان میں قید رکھتا ہے۔ طرح طرح کے خیالات اسکی بے بسی و لاچاری اور طلبِ محبت کی شدت کو بڑھا کر اسکو احساسِ کمتری کے ایسے سمندر میں غرق کرتے ہیں کہ انسان چڑچڑاہٹ کا نہ صرف شکار ہوجاتا ہے بلکہ چڑچڑا پن اسکے مزاج کا مستقل جز بن جاتا ھے۔ یہ وہم  اور گمان  حقیقت سے لاتعلقی کے باوجود بھی انسان کو افسردگی کے دائرے میں محصور کردیتا اور انسانی مزاج اور سے منسلک اندازِ زندگی کسی قیامت سے کم نہیں ہوتے ۔ ہر روز یہ اوہام و گمان اس کو پریشان کرتے ہیں اور اسکی زندگی کو خاموشی سے اجیرن بنا دیتے ہیں  ۔  اسی طرح وہم  و  گمان کچھ لوگوں کو اس طرح اپنے سحر میں لپیٹتے ہیں کہ وہ Erotomania جیسی خطرناک اور قابلِ ترس بیماری کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ اس بیماری میں انسان  یہ گمان کرنے لگ جاتا ہے کے کوئی شخص اس سے خفیہ طور پہ بہت محبت کرتا ہے اور عمومی طور پہ وہ شخص کوئی نامور اور مشہور شخصیت ہوتی ہے۔ اس عارضے میں ذہن حقیقت پر وہم کی ایسی طلسماتی چادر ڈھکتا ھے کے انسان اس وہم سے تائب ہونے اور اسکو اپنا وہم سمجھنے کو تیار ہی نہیں ہوتا ۔  وہ مختلف طریقے سے اس شخص کو اپنے دل کا حال بتانے کیلئے خط لکھتا ہے یا سوشل میڈیا کے استعمال سے اپنے دل کی آواز پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔ اور کبھی تو وہمی دیوانگی اس قدر بڑھ جاتی ہے کے وہ شخص مجمع میں اس شخص سے روبرو ملنے کی کوشش کرتا ھے اور اسکو اپنے دل کی بات بتانا چاہتا ہے۔ اس مرض میں مبتلاء ذہنی مریضوں کو اگر ان کے وہم سے آگاہ بھی کیا جائے تو وہ یہ بات ماننے سے صاف انکار کردیتے ہیں ۔ اور اگر بذاتِ خود وہ شخص جس کے عشق کے وہم میں مریض گرفتار ہوتا ہے خود بھی اسکو بتائے کے وہ اس سے پیار محبت نہیں کرتا تو اسکا ذہن یہ بات ماننے سے بھی انکار کردیتا ہے اور اسکو کوئی مصلحتی چلن گمان کر کے حقیقت سے دوری بنائی رکھتا ہے ۔اکثر  اس  وہم کی طوالت مریض کی موت سے جاملتی ہے۔ 2) Obsessive love اگرچہ Obsessive love کو DSM-5  کے مطابق ذہنی بیماریوں کی فہرست میں شامل نہیں کیا گیا لیکن سائکیٹرک  ( psychiatric ) کی کثیر تعداد اسکو ذہنی عارضے سے تعبیر کرتی ہے اور اسکے تدارک کیلیئے علاج بھی تجویز کرتی ہے ۔ اہلِ الفت میں سب سے خطرناک اور راہِ موت سے متصل اس بیماری کے نقوش تاریخ میں جا بجا ملتے ہیں ۔ اس بیماری میں محب اپنی  محبت میں جنونی حد تک پہنچ جاتا ہے اور اسکو اپنی محبت اور محبوب کے علاوہ اور کچھ نظر نہیں آتا ۔ اس مرض کا مبتلاء کہیں لیلیٰ کی گلی کے کتے کے پاؤں چومتا پایا جاتا ہے تو کبھی کوئی اس جنون کا شکار حصولِ  محبت کیلئے  پہاڑ کو چیڑنے کیلئے رضا مند ہوجاتا ہے۔ اس مرض کے شکار کو محبوب اور اس سے نسبت رکھنے والی ہر شئے سے الفت ہوجاتی ہے اور وہ اسکو پانے کیلیئے کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہیں کرتے ۔اگر ایسے جنونی عشاق کو کبھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑے تو یہ موت کو گلے لگانے سے نہیں گھبراتے اور عشق میں اپنی جان دینے کو ترجیح دیتے ہیں ۔ اکثر ناکامی کے بعد  یا تو پاگل ہوجاتے ہیں یا خود کو ختم کر کے اپنی محبت کا ثبوت رقم کر جاتے ہیں ۔  3) Attachment Disorder یہ مرض بچپن کے زمانے سے تشکیل پاتا ہے۔ وہ لوگ جو بچپن سے ہی محبت و شفقت کے سایے سے محروم رہے ہوں اور اس عارضے کا اکثر شکار ہوجاتے ہیں اس عارضے کے جنم میں درج ذیل وجوہات کلیدی کردار ادا کرتی ہیں ۔  ۱) یتیمی یا سرپرست کا نہ ہونا  ۲) نظر انداز ہونا  ۳) بچپن میں سر پرست سے جدا ہونا  4) بار بار سر پرست کا تبدیل ہونا  ان وجوہات  کے سبب  نومولود بچپن میں شفقت و محبت سے

psychology

رگِ سنگ سے ٹپکتا وہ لہو کے پھر نہ تھمتا

 از قلم : اسامہ رضا  رگِ سنگ سے ٹپکتا وہ لہو کے پھر نہ تھمتا  جسے غم سمجھ رہے ہو یہ اگر شرار ہوتا ہے  لغات:  رگِ سنگ __پتھر میں سے  شرار ___ چنگاری آگ  شرح ___ غالب نے اس شعر میں حسنِ تعلیل کی صنعت کا استعمال اس خوبصورتی اور قرینے سے کیا ہے کے اس شعر کی تعریف کرنا بھی امکانِ ممکنات سے ماورا ہوگیا ہے۔ اس شعر کو گر حسنِ تعلیل کا اعلیٰ نمونہ قرار دیا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔  غالب کہتے ہیں کے جس طرح میرے دل میں غم بھرا ہے اور جس ہمت و حوصلے سے میں نے غم کو دل میں دبایا ہوا ہے اگر دل کی جگہ پتھر ہوتا تو وہ بھی غم کو نہیں سہہ پاتا اور اس کے اندر سے بھی خون اس طرح رواں ہوجاتا کے کبھی تھمتا ہی نہیں ۔  لیکن یہ شعر اتنا سادہ فہم بھی نہیں جیسا کے شارحین نے اس بیان کیا ہے۔  اس شعر کو سمجھنے کیلئے کچھ تمہید باندھ لیتے ہیں۔ غم کی تاثیر آگ سی ہوتی ہے جو انسان کے اندر ایک آگ سی لگادیتی ہے اور جس قدر اس غم کے شعلے کو دبا کر رکھا جائے اس قدر انسان اندر سے بھسم ہوتا جاتا ہے ۔ اب شعر کو اسکی الفاظی جادوگری سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں چونکہ شعر میں صنعت حسنِ تعلیل کا استعمال کیا گیا ہے جس میں غم کو شرار سے تشبیہ دی گئ ہے یعنی آگ سے ۔  غالب کا کہنا ہے کے اگر میرے دل کی جگہ پتھر (سنگ) ہوتا اور اسکو سہنے کیلئے آگ میں جلایا جاتا تو پتھر بھی پگھل کر خون کی طرح بہنے لگتا۔   میں قارئین کی توجہ ایک جیولوجیکل عمل کی طرف دلوانا چاہتا ہوں کے کس طرح اگر پتھر کو شدید حرارت و دباؤ کا سامنا کرنا پڑ جائے تو پتھر پگھل کر بہنا شروع کردیتا ہے جس جیالوجی کی زبان میں میگما کہا جاتا ہے۔  آج چونکہ ہم جانتے ہیں کے جب پتھر کو شدید دباؤ اور حرارت کا سامنا ہو تو وہ پگھل کر میگما میں تبدیل ہو جاتا ہے جس کا رنگ بھی سرخ ہوتا ہے ۔   خدا جانے اس زمانے میں غالب اس جیالوجیکل فیکٹ کو جانتے تھے یا نہیں یا یہ غالب کی وجدانی قوت تھی کے اس نے کس اس حقیقت کو اپنے وجدان سے اس خوبصورت انداز میں بیان کردیا کے قاری غالب کے کمالِ حسنِ مشاہدہ یا کمالِ وجدان کا معترف ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ اسامہ رضا

psychology

ہم محبت کیوں کرتے ہیں ؟ محبت کی حقیقت

تقریبا ہر شخص کو محبت کا تجربہ ہوتا ہے لیکن بہت کم لوگ ہی اسکی اصل حقیقت و اہمیت سے واقف ہوتے ہیں  ہم محبت کیوں کرتے ہیں  سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ  محبت  کی حقیقت کیا ہے۔؟؟؟  انسانی جبلت میں اسکی اشتراکیت کا کا کیا عالم ہے۔؟؟؟  یہ انسانی زندگی کا ایک جزوی پہلو کیونکر ساری حیات پر غالب آجاتا ہے۔۔؟؟؟ آخر کیا وجہ ہے کہ ہم اپنے آپکو اس الفت کے سمندر میں غوطہ زن کرنے کا فیصلہ کرتے وقت چند ساعتیں بھی سوچنا گوارا نہیں کرتے؟؟؟؟ کیا محبت ہماری زندگیوں کو معنی دیتی ہے۔؟؟؟ یا محبت گوشہ تنہائی سے فراغت کے حصول کا ایک کلیہ ہے؟؟؟ یا اپنی پریشانیوں اور اکتاہٹ بھری زندگی سے چھٹکارا حاصل کرنے کا طریقہ ہے۔؟؟؟؟ یا یہ جبلت انسانی میں شامل جنسی ہوس کو پورا کرنے کا بہانہ ہے۔؟؟؟ یا یہ فطرت کی بقائے نسل کی ایک رنگین چال ہے۔؟؟؟ یا یہ صرف کیمیکلز اور ہارمونز کا ذہن پہ حملہ ہے جو سوچنے کی صلاحیت کو اور صحیح فیصلہ کرنے کی صلاحیت کو سلب کر دیتاہے۔؟؟؟ یا کوئی طلسماتی لہروں کا کمال ہے جو انسان کے شعور پر قابض ہوجاتی  ہیں ۔؟؟؟ کسی نے محبت کو زندگی قرار دیا تو کسی نے اس دنیا کی اساس قرار دیا۔ محبت کی ہزاروں تعریفیں کی گئیں لاکھوں لوگوں نے اس  مقفل باب کو کھولنے کیلئے علمی اور فکری جستجو کی ۔ شاعروں دن رات محبت کے قصیدے لکھے اور کبھی محبوب کو خدا کے درجے پہ فائز کیا تو کبھی صنم بنا کے اسکو پوجتے رہے۔ کبھی تعریفوں کے پل باندھتے وقت گلشن کے حسن کو ماند قرار دے دیا تو کبھی جبین کی چمک کو ستاروں سے تشبیح دے کر مبالغہ رائی کی حدیں پار کردیں۔ کبھی رانجھے نے ہیر کیلیئے ساری دنیا ترک کردی تو کبھی مجنوں لیلٰی کی گلی کے کتے کے پاؤں چومتا پایا گیا ۔ کبھی فرہاد نے شیریں کی الفت کی خاطر پہاڑ کو چیڑنے کیلیے اپنی ساری زندگی جوکھم میں ڈال دی تو کبھی رام نے سیتا کیلیئے راون کی لنکا ڈھا دی ۔ لاکھوں عاشقوں نے اس جذبہِ الفت کے زیرِ اثر موت کو سینے سے لگالیا ہزاروں لوگ اس الفت کے نشئے میں اپنی زندگیاں برباد کر بیٹھے تو لاکھوں لوگ اس شدتِ عاشقی  کے باعث دیوانے ہوگئے۔ سائنس نے جہاں طبعی دنیا کے اسرار کو منکشف کیا ہے اور تاریخ کی الجھی ہوئی پہیلوں کو حل کیا ہے وہیں غیر مادی قوتوں کے مخرج اور انکا مدیت سے تعلق سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ جہاں اس نے کششِ ثقل کے قوانین دریافت کیے تو وہیں سائکالوجی اور نیوروسائنس نے انسانی شعور کا احاطہ کیا ہوا ہے ۔ نیوروسائنس کے ماہرین محبت کو تین مراحل میں تقسيم کرتے ہیں ۔ شہوت  (LUST)  کشش (Attraction) بندھن (Attachment) ان تینوں مراحل میں مخلتف کیمیکلز اور مختلف ہارمونز حصہ لیتے ہیں ۔ اور مختلف ہارمونز مختلف احساسات کو جنم دیتے ہیں اور مختلف خواہشات اور جذبوں کے مخرج کا سبب بنتے ہیں ۔ *شہوت (LUST) *:  شہوت (LUST) محبت کا پہلا مرحلہ ہے اور  جو سیکس ہارمونز Testosterone اور Oestrogen کی وجہ سے مرد و خواتین دونوں میں  اجاگر ہوتا اس کا انحصار انسان کے طبعی خدوخال اور جسمانی بناوٹ کا متقاضی ہوتا یہ چہرے کی رعنائی اور آنکھوں پر بھی بڑی حد تک منحصر ہوتا ہے ۔ جو لوگ جنسی طور پر زیادہ پرکشش ہوتے ہیں ان کو دیکھ کے یہ عمل بلا خیز سرعت کے ساتھ آغاز پکڑتا ہے ۔ *کشش (Attraction)* کسی کی طرف شعوری  طور پر توجہ کا مائل ہونا اور گوشہ تنہائی میں اگر آپکی سوچ کو کسی دلربا کی یاد گھیر لے اور آپکو اس دلربا کو سوچ کر مسرت و راحت کا احساس ہو تو سمجھیے آپ محبت کے دوسرے مرحلے میں قدم رکھ چکے ہیں ۔ یہ فکری رجوع کی کیفیت یہ کینچھاؤ اور یہ کششِ لاثانی بھی تین کیمیکلز کی مرہونِ منت ہے۔ یہ تینوں کیمیکلز بھی تین جزوی مراحل کی تکمیل کا کام کرتے ہیں ۔ تینوں کیمیکل کے خواص درج ذیل ہیں Adrenaline Dopamine Serotonin *ایڈرینا لین (Adrenaline )* : جب آپ کسی دلربا کی یاد میں محوِ غرق ہوتے ہیں اور اس گہری سوچ میں آپ من سے مکالمہ کر رہے ہوتے ہیں تو اس وقت آپکے خون میں ایڈرینالین اور کورٹی سول Cortisol کا لیول بڑھ جاتا ہے آپکی دل کی دھڑکن تیز ہوجاتی ہے اور منہ سوکھ جاتا ہے ۔ اس حیران کن اور عجیب احساس کی اساس مندرجہ بالا کیمیکل ہوتا ہے ۔ *ڈوپامائن (Dopamine )* یہ کیمیکل خواہشات کی بیداری کا کام کرتے ہیں۔ جب آپ اپنے محبوب کے خیالوں میں ہوتے ہیں تو طرح طرح کی خواہشات اور ان خواہشات کی تکمیل کی خواہش ایک عجب سی خوشی ایک منفرد سی راحت کو جنم دیتی ہے۔ اور آپکو ان خواہشات کی تکمیل کیلیئے محرک کرتی ہے اور آپکو فرحت اور مسرت کا ایک لاثانی احساس بخشتی ہیں  ۔جب ڈوپامائن کا لیول بڑھتا ہے تو انسان کو سونے کی , کھانے کی اس طرح کی ساری باتیں مائل کرنے قاصر رہتی ہیں ۔ اور وہ پورے انہماک کے ساتھ اپنی محبت کو گہرائی بخشنے اور مراسم کو تواتر اور مظبوطی دینے کی جستجو میں لگ جاتا ہے۔ اسکا تعلق تقریباً دنیا سے کٹ جاتا ہے یہ ایسی ہی کیفیت ہے جو کسی منشیات کی لت میں لگے کسی نشئ کو ہوتی ہے۔ جس میں اسکا آرام اس دوا میں پنہاں ہوتا ہے ۔ *سیروٹونین (Serotonin )* جذبہِ الفت میں خاصی اہمیت کا حامل یہ کیمیکل آپکو تسلسل کے ساتھ آپکے محبوب کی یاد میں محوِ غرق رکھنے کا کام تسلی بخش کرتا ہے۔ آپکی توجہ کو مکمل آپکے محبوب کی طرف جھکائے رکھتا ہے۔آپ اسکو سوچتے ہوئے کبھی درد و الم کی دنیا میں پہنچ جاتے ھیں کہ کہیں وہ آپکو چھوڑ نہ جائے ۔ کہیں اسکے کسی اور کے ساتھ مراسم نہ ہوں ۔ اس طرح کے خیال آپکو چڑچڑا بنادیتے ہیں تو کبھی ایک عجیب سی پریشانی کے قفسِ مسلسل میں مقید کردیتے ہیں ۔ تو کبھی آپ اسکو سوچ کر اپنائیت اور خیالی کی ایسی دنیا میں مگن ہوجاتے ہیں جو آپکو مسرتوں کے گلشن اور خوشیوں کی کہکشاؤں میں لیے اڑتی ہے۔ *بندھن (Attachment)* محبت کا آخری مرحلہ جس میں دو پریمی رشتہ ازدواج میں بندھ جاتے ہیں ۔ اور

psychology

بائیو سائیکوسوشل ماڈل آف ہیلتھ سائکالوجی Biopsychosocial model of health

“بائیو سائیکوسوشل ماڈل کی تاریخ” بائیو سائیکوسوشل ماڈل حیاتیات، نفسیات اور سماجی اصولوں کو استعمال کرتے ہوۓ بیماری اور صحت کے درمیان تعلق اور فرق کو بیان کرتا ہے۔ یہ ماڈل ان تین اہم فیکٹرز کے درمیان موجود تعامل کو استعمال کرتے ہوۓ بتاتا ہے کہ بیماری کیوں اور کیسے ہوتی ہے اور یہ تین فیکٹرز کیسے بیماری یاں صحت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔یہ ایک متحرک تعامل (dynamic interplay) نہ صرف بیماری کی تشخیص کرتا ہے بلکہ معالج کو یہ بھی بتاتا کہ کہ بیماری کا علاج کیسے ممکن ہے اور اس بیماری کے اثرات کیا کیا ہیں۔ یہ ماڈل پیشہ ور افراد کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ وہ کسی فرد کی ذہنی صحت کے بارے میں مزید وسیع معلومات کے لیے حیاتیات، نفسیات اور سماجی ماحول کے درمیان مختلف رابطوں پر غور کریں۔ “Founder of Model” یہ ماڈل 1977ء میں یونیورسٹی آف روچیسٹر (University of Rochester)  میں میڈیسن اور سائکاٹری کے مشہور پروفیسر “جارج اینجل”  (George Engel) نے پیش کیا۔ ڈاکٹر اینجل نے یہ ماڈل بائیومیڈیکل ماڈل کو مسترد کرتے ہوۓ پیش کیا کیونکہ ڈاکٹر جارج اینجل کا کہنا تھا کہ یہ ماڈل محدود علم پر منحصر ہے۔  اس ماڈل کو مسترد کرنے کی بڑی وجہ یہ نقطہ تھا کہ: (1) اس ماڈل میں بیماری کی تشخیص کے لئے صرف حیاتیاتی پہلوؤں کو مد نظر رکھا گیا تھا. (2)دوسرا تنقیدی نقطہ یہ اٹھایا جاتا تھا کہ بائیومیڈیکل ماڈل بیماری کی تشخیص کے دوران اس بات کا ہامی تھا کہ دماغ جسم سے الگ ہے۔ بیماری کا تعلق جسم سے ہے دماغ سے نہیں۔ بائیوسائیکوسوشل  ماڈل ایک انقلابی تصور (Revolutionary concept) تھا اور اس نے ڈاکٹروں کو طبی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ  فرد کی صلاحیتوں، کرداروں اور ذمہ داریوں جیسی چیزوں کو دریافت کرنے میں بھی رہنمائی کی۔ اس ماڈل کا وسیع اطلاق نفسیات کے میدان میں ہوتا ہے لیکن اس ماڈل کی مضبوط بنیادوں کی بنیاد پر یہ دوسری فیلڈز میں بھی ہوتا ہے جیسے کہ میڈیسن میں اور اسی طرح سوشل ورک میں بھی اس ماڈل نے اپنی اہمیت کا لوہا منوایا ہے۔ “بائیو سائیکو سوشل ماڈل کیا ہے” اس ماڈل کو سمجھنے سے پہلے اس بات پر غور کرتے ہیں کہ یہ ماڈل اڈوپٹ کرنے کی ضرورت کیسے محسوس ہوئی، اس کے لئے ہم چند سوالوں پر غور کرتے ہیں۔ (1) ہم کیسے جان سکتے ہیں کہ ڈپریشن یاں انزائیٹی ہونے کی کیا وجہ ہے؟ (2) ڈپریشن اور انزائیٹی ہونے میں کونسے عوامل کردار ادا کرتے ہیں؟ جب ان سوالوں پر غور کیا گیا تو پھر کسی ایسے ماڈل کی ضرورت محسوس ہوئی جو بیماری میں ملوث عوامل کو سمجھنے میں مدد دے۔ جب سائیکالوجسٹس نے اس ماڈل کو اڈوپٹ کیا تو وہ یہ سمجھنے کے قابل ہوۓ کہ کسی بھی نفسیاتی مرض میں مبتلا مریض پر مختلف فیکٹرز اثر کر سکتے ہیں، جیسا کہ نفسیاتی عادضہ جینیاتی ہو سکتا، جذبات کو قابو نہ کر پانا اور ماحولیاتی سٹریس وغیرہ، ان تمام سوالوں کے جواب اس ماڈل کے ذریعے تلاش کرنا ممکن ہوا۔ حیاتیاتی، نفسیاتی اور سماجی عوامل کیسے بیماری کی وجہ بنتے ہیں اور ان عوامل کے کیا اثرات ہیں بائیو سائیکو سوشل ماڈل ان تمام پہلوؤں کو بہترین طریقے سے سمجھنے کے قابل بناتا ہے۔ “The Three Aspects of the Biopsychosocial Model” “بائیو سائیکوسوشل ماڈل کے تین پہلو” “(1) Biological Factors” “حیاتیاتی عوامل” ”بائیولوجیکل فیکٹرز” سے مراد وہ حیاتیاتی اجزاء ہیں جو صحت کو متاثر کرتے ہیں۔ اس میں جینیات، نیورو کیمسٹری، جسمانی صحت، یا ادویات کے اثرات شامل ہیں۔ مثال کے طور پر، اگر کسی انسان کو پتہ چلتا ہے کہ اسے ایک بیماری ہے جو بغیر دیکھ بھال کے بتدریج بگاڑ پیدا کر سکتی ہے اور وہ آزادانہ طور پر اپنی زندگی گزارنے کے قابل نہیں ہے ۔ یہ مرض نہ صرف اس کی جسمانی صحت کو متاثر کرے گا بلکہ یقینی بات ہے کہ اس سے نفسیاتی اثرات بھی سامنے آئیں گے۔ اسی لئے اس ماڈل نے اس نقطہ کو اٹھایا تھا کہ حیاتیاتی عنصر نفسیاتی پہلوؤں کو بھی متاثر کرتے ہیں، جیسے کہ بیماری میں مبتلا انسان صحت مند ہوتے ہوۓ اور بیماری میں مبتلا ہو کر زندگی کو کس طرح دیکھتا ہے۔اس سوچ کے آتے ہی وہ ذہنی تناؤ کا شکار بھی ہوتا ہے جس سے مزید مسائل جنم لیتے ہیں۔ ” (2) Psychological Factors” “نفسیاتی عوامل” ”سائیکو جیکل فیکٹرز” سے مراد وہ نفسیاتی اجزاء ہیں جو خیالات، جذبات اور طرز عمل (Behaviors) جیسے فیکڑز کو ظاہر کرتے ہیں۔ ان فیکٹرز  میں سیکھنے کی مہارت (learning)، مقابلہ کرنے کی مہارتیں (coping skills)، مزاج (temprament) اور عقائد (beliefs) شامل ہیں۔  مثال کے طور پر، وہ انسان جو بیماری میں مبتلا یے وہ اس بات سے خوفزدہ ہے کہ آیا وہ صحت مند ہو گا یاں نہیں اس سوچ سے پریشانی پیدا ہو جاتی ہے۔ اس کا خوف اور منفی  خیالات اس کی بیماری پر قابو پانے کی صلاحیت کو متاثر کرتے ہیں۔ دوسری طرف، اس شخص میں بیماری کی تشخیص کے بعد اس کا سب سے بڑا خوف یعنی وہ کیا کرنا چاہتا ہے اور کیا کرے گا یہ ظاہر ہو جاتا ہے۔ ان نفسیاتی ع عوامل کے اس امتزاج سے اس کی مجموعی صحت پر مثبت یا منفی اثر پڑ سکتا ہے۔ اس لئے بیماری صرف حیاتیاتی عوامل کی وجہ سے نہیں ہوتی بلکہ نفیساتی عوامل کا کردار بھی بہت اہم ہے۔ “(3) Social Factors” “سوشل/ سماجی فیکٹرز” ”سوشل /سماجی فیکٹرز” سے مراد کسی کا سماجی ماحول ہے۔ اس میں ہم مرتبہ تعلقات (peer relationship)، خاندانی حرکیات (family dynamics)، سماجی اقتصادی حیثیت (socioeconomic status) ، اور کام کے حالات (working situation) جیسے اجزاء شامل ہیں۔  مثال کے طور پر، بیماری میں مبتلا انسان کے  پاس اپنی حالت میں بہتری لانے کے لیے وسائل نہیں ہیں۔ اس کے پاس اپنے وسائل کی کمی کو پورا کرنے کے لئے مشکل ترین کام ہے جو کہ بیماری کی حالت میں سرانجام دینا مشکل ہے۔ اس کی شریک حیات بھی جو کام کرتی ہو وہ گزر بسر کے لئے نہ کافی ہو اور اس کے تین بچے ہیں۔ اس کے ساتھ روزمرہ کی ذمہ داریوں میں مدد کرنے کے لیے آس پاس کوئی نہ ہو جو زمہ داریوں کو پورا کرے تاکہ وہ علاج پر توجہ دے سکے۔ یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ بائیو سائیکوسوشل  ماڈل کے اندر تعاملات چکراتی (cyclical) ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، ایک سماجی عنصر جیسا کہ رشتوں کا فقدان (lack of

psychology

Story of Wild Boy by Osama Raza – وحشی لڑکے کی داستان ( ماحول کے نفسیاتی نشوونما پر ان مٹ نقوش ) تحریر : اسامہ رضا

تحریر : اسامہ رضا  یہ 1799 کی بات ھے جب کچھ شکاریوں کی نگاہوں نے ایک جنگلی لڑکے کو جنوبی فرانس کے جنگل میں جھاڑیوں سے گزرتا دیکھا یہ لڑکا عجیب خدوخال میں ڈھلا جانوروں سی حالت میں تھا۔ شکاریوں نے اس  واقع کو بروقت رپورٹ کردیا بلآخر فوری ایکشن کی بنا پر اس جنگلی لڑکے کو جنگل سے برآمد کرلیا گیا۔  پیرس میں  یہ خبر جنگل میں آتش کی طرح پھیل گئ اخباروں میں جنگلی لڑکے کی تصویروں نے تجسس کی ایک فضاء کو جنم دے دیا۔ سوسائٹی آف آبزرور آف مین ( Society of Observer of Man )  جس کی تشکیل ابھی حال میں ہی قیام میں آئی تھی ۔ سوسائٹی کے پینل نے اس جنگلی لڑکے کے نفسیاتی مطالعہ اور تجربات کے غرض سے اپنی تفویض میں لے لیا۔ اس  جنگلی لڑکے کی عمر قریباً بارہ  (12 ) سال تھی ۔  1800 میں اس جنگلی لڑکے کو ایک مخصوص پنجرے میں مقید کرکے پیرس میں لایا گیا۔  جہاں ایک ہجوم اس کو دیکھنے کا منتظر تھا ۔ جنگلی لڑکا پنجرے میں گھبراہٹ و بے حسی کے عالم میں اپنے گرد انسانوں   کو دیکھ کر محوِ حیرت و ساکت بیٹھا رہتا تھا۔ پینل نے جنگلی لڑکے نفسیاتی تجزیے اور اسکو انسانوں کے حلیے میں ڈھالنے کی کاوشوں کے بعد اعلانیہ طور پر اسکو incurable idiot قرار دے دیا ۔ لڑکا جانوروں کی طرح چاروں بازوں پر حرکت کرتا , اپنے کپڑوں کو چباتا نوچتا اور اونچی اونچی غراتا پینل کے فزیشن  بلاآخر اپنی کوششوں اور کلیوں کے باوجود خود کو ناکام پا چکے تھے ۔ انسانوں کی نفسیاتی نشوونما اور پروان کے ماحول کے اثرات اس جنگلی لڑکے کے تجزیے کے سے روز روشن کی طرح واضح تھے۔ پینل کی ہار اور ناکامی کے باوجود بھی اسی پینل کے ایک اسسٹنٹ جین مارک گاسپرڈ ( J ean-Marc-Gaspard ) نامی فزیشن  کا ابھی تجسس رفع نہیں ہوا تھا اور نہ ہی ہمت ختم ہوئی تھی۔ جین نے اس جنگلی لڑکے کو اپنی تفویض میں لیکر اپنی سی کرنے کی ٹھان لی اور اسکو جنگلی رویوں سے ایک انسان کے روپ میں ڈھالنا تھا۔ اسکو اس لڑکے کو زبان و بیان سکھا کر انسانی لرننگ کے طریقوں کا بھی تجربہ کرنا مقصود تھا۔ جین نے اس جنگلی لڑکے کو وکٹر کا نام دیا اور اسکی تعلیم و تربیت کیلئے جوش و خروش سے جتن کرنے لگا۔  جین نے اسکی معاشرے سے خلوت نشینی کو اسکے رویوں اور موجودہ حالت کی وجہ قرار دیکر اس مفروضے کو بنیاد بنا کر اپنے مشن کا آغاز کیا۔ جین کے ہاں پانچ مقاصد تھے ۔ ۱) وکٹر کے اندر معاشرتی رویوں کو پیدا کرنا اور یہ احساس دلانا کے یہ زندگی اسکی پرانی زندگی سے بہتر اور پر لطف ہے۔ ۲) وکٹر کی اعصابی حساسیت (Nervous sensibility ) کو انرجیٹک سمولشن اور ایموشن سے متحرک کرنا . ۳) وکٹر کے تخیلات کو نئ ضروریات اور حاجات کی بناءپر وسعت دینا اور اسکے سوشل کنٹیکٹ کو بڑھانا ۔ ۴) اسکو ضروریات و حاجات کی بناء پر زبان اور چیزوں کے نام سکھانا ۔ ۵) اور وقت کے ساتھ ساتھ اسکو ضروریات اور حاجات کے چھوٹے موٹے کام از خود کرنے سکھانا۔ جین نے مندرجہ بالا مقاصد کی تکمیل کیلئے اور وکٹر کی بحالی ( Rehabilitation ) کیلئے انتھک محنت کی اور بلاآخر کافی حد تک اپنے مقاصد کی جزوی تکمیل میں کامیاب رہا۔ وکٹر اپنے آپکو صاف اور کپڑوں میں ملبوس رکھنا سیکھ چکا تھا۔وہ اپنے ہاتھوں سے کھانا کچھ احکامات پر عمل کرنا حتٰی کے کچھ الفاظوں کو پڑھنا اور لکھنا سیکھ گیا ۔ لیکن وکٹر زبان و بیان سیکھنے میں ناکام رہا ۔  وہ پیار و قربت کے رویوں کا اظہار کرنا سیکھ تو گیا مگر اکثر اسکا رویہ حد درجہ غیر متوقع اور غصیلی ہوتا جس میں وہ اونچی اونچی چلانا شروع کردیتا اور غصّے سے غراتا۔ اشیاء میں تمیز و تخصیص کے شعور کا عالم یہ تھا کے وہ اکثر اپنے کپڑے , چادر حتٰی کے کرسی کو چبانے اور نوچنے لگ جاتا ۔ مسلسل پانچ سال کی جدوجہد کے بعد جین نے اپنی امید کھودی ۔ گویا وکٹر کی جس ماحول میں نفسیاتی نشوونما اور پرورش ہوئی تھی ۔ وہ کبھی اس ماحول سے مکمّل طور پر باہر نہیں آسکا۔ اسکے ماحول اور جنگلی ماحول کی چھاپ مرتے دم تک اسکے زہن پر نقش رہی۔ وکٹر 1828 میں چالیس سال کی عمر میں وفات پاگیا۔ اس واقعے کے تناظر میں آپ  نفسیاتی نشوونما اور اسکے ماحول کے اثرات کی اہمیت کا اندازہ لگاسکتے ہیں ۔  گویا  دورِ طفولیت اور لڑکپن جو عادات و رویوں کی چھاپ ذہن پہ لگاتا ہے وہ رہتے دم تک انسان کے ساتھ کسی نہ کسی طور پر رہتی ہے۔ ازراہِ تفنن ہی سہی اس واقعے کو پڑھ کے یوں لگتا ھے وکٹر جین سے بزبانِ غالب کہتا ہوگا دوست غمخواری میں میری سعی فرمائیں گے کیا زخم کے بھر جانے تلک ناخن نہ بڑھ جائیں گے کیا گر کیا ناصح نے ہم کو قید اچھا یوں سہی یہ جنونِ عشق کے کے انداز چھٹ جائیں گے کیا For references Plucker, Jonathan (2007). “Jean-Marc Gaspard Itard (April 24, 1775 – July 5, 1838) French Physician”. Human Intelligence. Indiana University. Archived from the original on 2011-11-25. Retrieved 2011-10-30.  Michel Gardère, La Femme Sauvage, Place Des Éditeurs, 2011, p. 47.  Jean Marc Gaspard Itard, Victor de l’Aveyron, Éditions Allia, 1994, p. 7.  François Dagognet, Le docteur Itard entre l’énigme et l’échec, preface by Jean Itard, Victor de l’Aveyron, éditions Allia, Paris, 2009, p. 7.  Jean Marc Gaspard Itard, Victor de l’Aveyron, Éditions Allia, 1994, p. 8.  Natacha Grenat, Le douloureux secret des enfants sauvages, La Compagnie Littéraire, 2007, p. 102.  Lane, Harlan (1976). The Wild Boy of Aveyron. Cambridge: Harvard University Press.  Itard, Jean-Marc-Gaspard (1962). The Wild Boy of Aveyron. New York: Meredith Company.  Shattuck, Roger (1980). The Forbidden Experiment. New York: Farrar Straus Giroux.  Séguin, Édouard (1866). Idiocy: and Its Treatment by the Physiological Method. W. Wood & Company. p. 17.  Benzaquén, Adriana S. (5 April 2006). Encounters with Wild Children: Temptation and Disappointment in the Study of Human Nature. MQUP. p. 163. ISBN 978-0-7735-8085-5.  Yousef, Nancy (2001). “Savage or Solitary?: the Wild Child and Rousseau’s Man of Nature”. Journal of the History of Ideas. 62 (2): 245–263. doi:10.1353/jhi.2001.0021. S2CID 171035302.  Ingalls, Robert P.

psychology

4 Types of Gaslighting in Families

*” فیملیز میں گیس لائٹنگ کی چار اقسام*” *”. پہلا حصہ*” *”گیس لائٹنگ کیا ہے؟*” گیس لائٹنگ نفسیاتی بدسلوکی (Psycholohical abuse) کی ایک شکل ہے جس میں ایک شخص یا گروہ کسی انسان کو  اپنی عقل، یادداشت یا حقیقت کے ادراک پر سوال اٹھانے /الجھن میں مبتلا کرنے کا سبب بنتا ہے۔ جو لوگ گیس لائٹنگ کا تجربہ کرتے ہیں وہ الجھن، فکر مند، یا گویا وہ خود پر بھروسہ نہیں کر پاتے۔ “گیس لائٹنگ” کی اصطلاح 1938ء کے ایک ڈرامے اور 1944ء کی فلم “Gaslight”کے نام سے ماخوذ ہے ، جس میں ایک شوہر اپنی بیوی کو یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ اسے کوئی ذہنی بیماری ہے۔ *”اہم نکات*”  * گیس لائٹنگ ہیراپھیری (manipulation) کی ایک تکنیک ہے۔جو عام طور پر رومانوی رشتوں میں استعمال ہوتی ہے، جو کسی شخص کو اس اپنے ہی تجربات پر شک میں مبتلا کرتی ہے۔ * خاندانی حرکیات بھی گیس لائٹنگ کی ایک شکل ہو سکتی ہے، خاص طور پر اگر وہ بچپن میں شروع ہوتی ہیں اور جوانی تک جاری رہتی ہیں۔ * کسی کے خاندان میں گیس لائٹنگ کی حرکیات کو پہچاننا اپنے آپ پر یقین بحال کرنے میں مدد کر سکتا ہے۔ *”آپ کو کیسے معلوم ہو گا کہ آپ گیس لائٹنگ کا شکار ہو گے ہیں؟*” (1) آپ بہت ڈرامائی ہیں (2) ایسا کبھی پہلے نہیں ہوا (کسی واقعہ کے متعلق آپ کا رد عمل) (3) آپ حد سے زیادہ جذبات ہیں۔ اگر آپ کو مسلسل اس طرح کے بیانات موصول ہو رہے ہیں یاں ہو چکے ہیں تو آپ گیس لائٹنگ کا شکار ہیں۔ گیس لائٹنگ کی اور بھی صورتیں ہو سکتی ہیں جس میں واضح طور پر آپ اس کا تجربہ کر سکتے ہیں۔ جس میں مقصد آپ کا اعتماد کم کرنا، آپ کو الجھنوں میں مبتلا کرنا ہو سکتا ہے۔  یہاں بات ہو گی کہ اگر ایک بچہ اپنے خاندان کی طرف سے گیس لائٹنگ کا شکار ہو گیا ہے تو کیا ہو گا؟ کیا ایسے بچے کو کامیاب انسان، زیادہ بااثر شخصیت کے طور دیکھنا مشکل ہو سکتا ہے؟ *”Gaslighting in a family*” جب ایک بچے کو والدین کی طرف سے ایسے بیانات سننے کو ملیں جو حقیقت کے ساتھ تعلق نہیں رکھتے تو بچے کے اندر گیس لائٹنگ پیدا کرنے والا پہلا نقطہ یہی ہوتا ہے کیونکہ دو چیزیں ایک ہی وقت میں درست نہیں ہو سکتیں ایک وہ جس کا وہ خود تجربہ کرے اور ایک وہ جو اس کے والدین نے بچے کو بتائی ہو۔ یہ نیچرل چیز کہ بچے کے ذہن میں یہ سوال ابھرے گا کہ *”میرے ساتھ کچھ تو غلط ہے/ ہو گا*” جب ایک بار بچہ اس بات پر یقین کر لیتا ہے کہ اس کے ساتھ کچھ غلط معاملہ ہو رہا ہے یاں ہو چکا ہے تو اس کے لئے گیس لائٹنگ کو سمجھنا مشکل امر ہوتا ہے کیونکہ گیس لائٹنگ کے شکار بچے کے لئے کسی بھی بات پر یقین کرنا مشکل ہوتا ہے وہ کسی بھی چیز کو حقیقت نہیں مان سکتا خاص طور پر خود اپنے آپ پر یقین نہیں کر پاۓ گا۔ *”Types of Gaslighting*” گیس لائٹنگ کی چار اقسام ہیں۔ *”1. The Double Bind Family”* *”( ڈبل بائینڈ فیملی)*” وہ والدین جو بچوں کو متضاد جوابات/ پیغامات دیتے ہیں تو بچے “دوہری پابندی” (double bind) کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس سے مراد یہ ہے کہ آپ ایک ہی سوال کا جواب جس طرح بھی دیں والدین آپ کو غلط ہی گردانیں اور ہمیشہ ناخوش ہوں اور بچوں کو سزا دیتے ہیں۔ یہ ساری چیزیں بچوں کو ایسی صورتحال میں مبتلا کر دیتی ہیں جس سے وہ اپنی ذات پر اعتماد کھو دیتے ہیں۔ ایسے بچوں کو جب ماں باپ یہ کہتے ہیں کہ ہم آپ کی بات کو سمجھ رہے ہیں لیکن ان کا اظہار کرنے کا طریقہ تنقیدی اور لہجہ ہتک امیز ہو جاتا ہے۔ اسی طرح ایسے والدین اپنے بچوں کو جب یہ کہتے ہیں کہ ہم آپ سے پیار کرتے ہیں تو بچوں کو ان کے اظہار اور ان کے الفاظ میں واضح فرق محسوس ہوتا ہے جس سے وہ اسی سچ جھوٹ کے درمیان معلق ہو کے رہ جاتے ہیں، کیونکہ ایک ہی سانس میں جب بچوں کو پیار اور مسترد کیا جاتا یے تو انھیں کچھ بھی حقیقی نہیں لگتا۔ ریسرچز ڈبل بائنڈز اور بارڈر لائن پرسنلٹی ڈس آرڈر (borderline personality)، پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر (posttraumatic stress disorder)، اور شیزوفرینیا (shizophrenia) کے درمیان مضبوط تعلق کو ظاہر کرتی ہے۔  *”Message/ Result*” *”(پیغام / نتیجہ)*” اس قسم کی گیس لائٹنگ کے نتیجے میں بچے نہ خود پر اور نہ ہی دوسروں پر یقین کرتے یے. *”Effects on adults*” *”(نوجوانوں پر اثرات)*” جب گیس لائٹنگ کی یہ قسم بچپن سے جوانی تک چلتی رہے  تو ایسے لوگ دوسروں کی بات کو سمجھنا اور اپنے تعلقات میں تحفظ محسوس کرنے میں ناکام رہتے ہیں کیونکہ وہ آپ اپنے سمیت کسی پر بھروسہ نہیں کر سکتے۔ *”2. The Unpredictable and Unstable Family*” *”(غیر متوقع اور غیر مستحکم خاندان)*” ایسے والدین جو ایک بار بچوں کو کسی دوست کی طرف جانے کی اجازت خوشی سے دیں لیکن دوسری بار اجازت طلب کرنے پر ڈانٹ ڈپٹ کریں۔ یہ رویہ  ان والدین کا ہوتا ہے جو سنگین ذہنی خلفشار کا شکار ہوتے ہیں۔  مثال کے طور پر ایسے والدین کچھ وقت کے لئے پرسکون رہتے ہیں پھر وہ جھگڑنے لگتے ہیں، اس کے بعد وہ انماد (mania) اور پھر ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جب بچے ایسے رویوں اور جذبات کو مختلف اصولوں اور نتائج کے مطابق دیکھتے ہیں جن کا کوئی مقصد یاں مطلب سمجھنا مشکل ہو تو بھی وہ گیس لائٹنگ کا شکار ہو جاتے ہیں۔   *”Message / Result*” *”(پیغام /نتیجہ)*” اس قسم کی گیس لائٹنگ کے نتیجے میں بچے اس رویے کو اڈوپٹ کر لیتے ہیں کہ کچھ بھی ہو سکتا ہے، وہ حالات پر کبھی قابو نہیں پا سکتے۔ *”Effect on Adult*” *”( نوجوانوں پر اثرات)*” جب نوجوان لوگ اس قسم کا شکار ہوتے ہیں تو وہ اس بات پر یقین قائم کر لیتے ہیں کہ لوگ ایک” معمہ/ تجسس” ہیں اور دوسروں کو سمجھنا ناممکن ہے۔ وہ اپنے جذبات کو برا سمجھتے ہیں

Scroll to Top