Sigmund Freud 3-Osama Raza– ( تحلیل النفسی کا بانی ) سگمنڈ فرائیڈ

سگمنڈ فرائیڈ
قسط : ۳  
تحریر : اسامہ رضا 
انسانی شخصیت کی تعمیر میں موروثیت سے کہیں زیادہ اسکے ماحول کا اثر ہوتا ہے ۔ شخصیت کی تعمیر کے نموئی مراحل ہی اسکی تکمیل کے ذمہ دار ہوتے ہیں ۔ اور ان مراحل کا موصول تجربہ ہی اسکی شخصیت اور اسکے مزاج کی کانٹ چھانٹ کر کے اسے ایک جدا شخصیت بناتا ھے ۔ ہر انسان ایک دوسرے سے جدا ہوتا ہے اسکی شخصیت اسکا مزاج اسکی طبع
ہر عمل ایک طرح سے منفرد اور کھربوں انسانوں سے یگانہ ہوتا ہے ۔ ایک ہی والدین ہونے کے باوجود بہن بھائیوں کا آپس میں اس قدر جدا طبیعت رکھنا موروثی قوتوں کی تعمیرِ ذات میں شراکت کی نفی کرتا ہے۔ اگر بچے والدین کی شخصیت کا آئینہ دار ہوتے ہیں تو ایک ہی والدین رکھنے والے بچے ایک دوسرے سے اتنے مختلف اور منفرد کیوں ہوتے ہیں ؟ وہ کونسے عوامل اور وہ کونسی جادوئی قوتیں ہیں جو انسان کو ایک جدا شخص بناتی ہیں ؟ بچے کی نفسیات آخر کن مراحل کے مرہونِ منت ہوتی ھے ؟ آئیے اس معمے کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ سگمنڈ فرائڈ نے اپنی  تھیوری psychosexual stages of  human  development  میں شخصیت کی تعمیر کے پانچ مراحل بتائیں ہیں ۔ فرائیڈ کی تھیوری کو سمجھنے سے پہلے ایک بات ذہن نشین کر لیجیئے فرائیڈ نے اپنی اس تھیوری کی بنیاد جنسیت پہ رکھی اور فرائیڈ جنسیت کی اصطلاح کو وسیع معنی میں استعمال کرتا ہے اسکے نزدیک ہر وہ شئے جو لذت و تلذذ اور راحت و سکون کا باعث بنے جنسیت کے زمرے میں آتی ہے۔اور ہر وہ فعل جو لذت و راحت کشید کر دے جنس و لذت کے زمرے میں آتا ہے حتیٰ کے طنز و مزاح سے پیدا ہونے والا حظ و انسباط بھی جنسی لذت کے دائرے سے باہر نہیں  ۔  فرائیڈ کے مطابق لاشعور میں چھپی ایگو (Ego)  کی شیطانی قوتیں لذت و راحت کے حصول کیلئے انسان میں جنسیات و شہوت کو وجود بخشتی ہیں ۔آئیے فرائیڈ کی جنسی لذت پر مبنی انسانی شخصیت کی تعمیر کی تھیوری کی  توجہیہ کی توضیح کرتے ہیں ۔
فرائیڈ انسانی شخصیت کے نموئی مراحل کو پانچ ادوار میں منقسم کرتا ہے یہاں یہ بات ذہن نشین کرلیجئے کے فرائیڈ کی تھیوری جنسیات کے گرد محوِ گردش ہے ۔


( ا ) Oral 
( ب ) Anal 
( پ ) Phallic 
 ( د ) Latent
 ( ج ) Genital


( ا ) Oral 
شہوت خیز عضو   : منہ 
مدت : پیدائش سے ایک سال 
پہلے دور کا آغاز بچے کی پیدائش سے ہوجاتا ہے۔ بچے اپنے ابتدائی طفولیت کے دور میں لذت و راحت اپنے منہ سے حاصل کرتا ھے۔چیزوں کو منہ میں ڈالنا چبانا چوسنا اسکے لیے لذت کے دو بڑے ذرائع ہوتے ہیں ۔
 بچہ ماں کا دودھ پیتا ھے اور خوارک کے ساتھ ساتھ راحت و سکون بھی حاصل کرتا ہے ۔ اس دور میں بچہ ہر چیز کو منہ میں ڈالنے کی سعی کرتا ہے  چیزوں کو منہ میں ڈال کے چوسنا چبانا اور لمس کے ذریعے راحت کا حصول اس دور میں بدرجہ اتم جاری و ساری رہتا ہے  ۔ لیکن اگر کسی وجہ سے بچہ ماں کے دودھ اور مطلوبہ راحت و لذت سے محروم رہ جائے تو اسکی شخصیت میں کچھ اعادات و اطوار لاشعوری طور پر جنم لیتے ہیں اور بچہ اس حصولِ لذت کیلئے کبھی مٹی کو منہ میں ڈالتا ہے کبھی انگلیوں کو منہ میں ڈال کے چوستا ھے۔ اگر اس مرحلے کی تکمیل میں کوئی بچہ ناکامیاب رہتا ہے تو اسکے اندر اس مرحلے کے مخصوص اطوار اپنے ان مٹ نقوش چھاپ دیتے ہیں ۔ جیسا کے اکثر دیکھنے میں آتا ہے کے بچے اپنے ناخن چبانے کی عادت کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ اسی طرح کچھ لوگ بچپن میں اس تلذذ کو انگوٹھا چوس کر پورا کرتے ہیں اور بچپن کے ادوار کے بعد بھی اسکے اندر یہ انگوٹھا چوسنے کی عادت قائم و دائم رہتی ہے ۔ اسی طرح جسم کے بال کھانا لبوں کو چبانا وغیرہ وغیرہ جیسی عادات بچپن کے اس ابتدائی طفولیت کی یادگار ہوتی ہیں ۔ اسی طرح یہی عادات و اطوار جب طفولیت سے عنفوانِ شباب میں منتقل ہوتی ہیں تو لذت و راحت کے مطلوبہ حصول کیلئے سگریٹ نوشی سپاری وغیرہ انگوٹھا چوسنے اور ناخن چبانے جیسی عادات کا متبادل بن جاتی ہیں ۔  
جن بچوں سے جلدی دودھ چھڑوا لیا جاتا ہے انکے اندر ایک احساسِ عدم تحفظ جنم لیتا ہے جو آنے والی زندگی میں اسکو مایوس شخصیت یا پھر لالچ ؤ طمع سے بھرپور شخصیت بنادیتا ہے جو ہر چیز پر قابض ہونے کی کوشش کرتا ھے۔ 
بچپن کے اس دور میں بچہ اپنی والدین خصوصاً ماں کا دستِ نگر ہوتا ہے اگر اسے مطلوبہ غذا اور لذت و راحت سے محرومیت کا سامنا کرنا پڑے تو اسکے اندر جارحیت کا رویہ تشکیل پاتا ھے اور وہ آنے والی زندگی میں سخت مزاج اور نقادی شخصیت بن کے ابھرتا ہے ۔ اور اگر اسکی ضروریاتِ لذت و راحت باہم دیگر خوارک تسلسل کے ساتھ پوری ہوں تو اسکے اندر خوش مزاجی تعمیری اطوار پروان چڑھتے ہیں ۔  جبکہ خوراک و لذت کی عدم فراہمی بھی اسکی شخصیت میں تعمیری عوامل تشکیل دے سکتی ہے جس کی وجہ اس تشویش کا تدارک ہوتا ھے جو احساسِ عدم تحفظ کی وجہ سے جنم لیتی ہے۔ چونکہ احساسِ عدم تحفظ اور لذت و راحت کی عدم فراہمی اسکے اندر تشویش اور ملال کو جنم دیتی ہے جو اسکی شخصیت کو ایک مسلسل گرداب میں جکڑ لیتی ہے۔ اور اس ڈپریشن سے شخصیت کو آزاد کرنے کیلئے ذہن قربانی اور اپنا مال دوسروں پر لٹانے جیسی خصلتوں کو جنم دیتا ہے جو بنیادی طور پر اس بات کا اظہار ہوتا ھے کے اسے ان چیزوں کی ضرورت نہیں ہے۔ یوں ضرورت سے زیادہ غنی اور سخی ہونا بھی ایک ذہنی عارضے کی شکل ہے ۔ اس تدارک تشویش کے مفروضے کو فرائیڈ ایک دلچسپ واقعے کی مثال سے سمجھاتے ہیں ۔ فرائیڈ کے پاس ایک مریضہ خاتون کا کیس آیا جو ہسٹیریا کا شکار تھی ۔ چونکہ فرائیڈ ہسٹیریا کو عضویاتی بیماری کی بجائے ذہنی عارضہ سمجھتا تھا  اس لیے اس نے اس خاتون کے حالاتِ زندگی کا مطالعہ کیا جس میں خصوصی اہمیت اس چیز کی تھی کے اس مریضہ لڑکی کی اپنے پریمی سے شادی ہونے والی تھی جبکہ اس خاتون کا باپ فالج کا شکار تھا۔ اور اس لڑکی کو ہمہ وقت اپنے باپ کی خدمت کرنا پڑتی تھی ۔ اور اپنے والد کی صحتیابی یا زندگی تک اسکی شادی کی کوئی امید نہیں تھی۔ اسکے لاشعور کے اندر دو قوتیں مسلسل دو بدو تھیں ۔ ایک سپر ایگو (ضمیر )  کی قوت جو اسے باپ کی خدمت پر مامور کیے ہوئے تھی جبکہ دوسری قوت Id جو اسے شادی کرنے اور لذت و راحت پر مجبور کرتی تھی اور اپنے باپ کی خدمت سے اسکی جان چھڑوانا چاہتی تھی ۔ اسی کشمکش میں اسکے ذہن نے اسے ہسٹیریا میں مبتلاء کردیا جو حقیقت میں اپنے باپ کی خدمت سے جان چھڑوانے کا مجرب کلیہ تھا ۔ اور ایسا ہوش و حواس میں کرنا اسکے لیے قریباً ناممکن تھا۔ 

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top