سگمنڈ فرائیڈ
قسط : نمبر 5
تحریر : اسامہ رضا
سگمنڈ فرائیڈ نے اپنے نظریات کے تناظر میں محبت کی دو توجیہات پیش کیں ۔ پہلی توجیہہ کے مطابق انسان کے لاشعور میں اڈ کی قوت انسان کو ہمیشہ تلذذ و تسکین کیلئے سرگرداں رکھتی ہے اور اسکا اظہارِ طفولت کے ادوار سے گزرتے ہوئے عنفوانِ شباب میں کسی نہ کسی طور اظہار ہوتا رہتا ہے۔ بچہ شروع میں جنسی لذتوں کی تسکین کی تحریک کی تکمیل کیلئے مختلف اعادات اور مختلف اعضاء کو مرکز بناتا ہے۔
فرائیڈ کے مطابق انسان کی تلذذ و تسکین اور راحت و سکون کی یہ خواہشات اسکو کسی شخص کی محبت میں مبتلاء کرتی ہیں ۔ اس طرح فرائیڈ کی نظر میں محبت اصل میں جنسی خواہشات کی تکمیل کی چال ہوتی ہے اور اسکا مقصد جنسی لذتوں کے علاوہ بقائے نسل بھی ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کے محبتوں کے مبینہ رشتوں کی مظبوطی و تقویت کے باوجود لوگ محبتوں کے علاوہ بھی دوسرے لوگوں سے تعلق رکھتے ہوئے نظر آتے ہیں کیونکہ جنسی لذتوں کے تنوع میں لذتوں کی لذت مستور ہوتی ہے۔ اس لیے محبت کا تصور فرائیڈ کے نزدیک واحدانیت اور یک صنم کے گرد محوِ گردش ہونے کی بجائے متعدد افراد سے جنسی روابط کی خواہش میں مضمر ہوتا ہے ۔اس لحاظ سے محبت کا وجدانی تصور اپنی قبر کو خود کھود کر از خود اندر مدفون ہوجاتا ہے جبکہ محبت کا ایک شخص سے ہونے کا دعویٰ بھی غیرفطرتی اور غیر منطقی ثابت ہوجاتا ہے۔
فرائیڈ کی تصورِ محبت کی دوسری توجہیہ نرگسیت سے متعلق ہے۔ قبل اسکے کے فرائیڈ کے اس تصورِ الفت پر بات کی جائے ہم پہلے نرگسیت کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں ۔ یونان کی دیومالا میں ایک کردار کا ذکر ملتا ہے جسے نارسس کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ کہا جاتا ہے کے یہ شخص نہایت حسین و جمال تھا ۔ اور بچین سے اپنی توصیف و تعریف سن کر خوش ہوتا رہتا تھا ۔ ایک دن اسکا گزر ایک تالاب کے قریب سے ہوا اور جب نارسس پانی پینے کیلئے تالاب میں جھکا تو اسکو اپنا عکس نظر آیا جب اس نے اپنے عکس کو اتنا حسین و جمیل پایا تو وہ حیرتِ مسرت کے باعث وہیں بیٹھ گیا ۔ کچھ دیر اسی حالت میں رہنے کے بعد نارسس کی وہیں موت واقع ہوگی۔
فرائیڈ نے قدیم یونانی داستان سے نرگسیت کی اصطلاح کو اپنایا ۔ اور خود ستائیشی کے آس جذبے کو نرگسیت کا نام دیا ۔ فرائیڈ کے مطابق ہر شخص کسی نہ کسی حد تک اپنی ذات کے خمار میں گرفتار ہوتا ہے ۔ اور اسکو اس خود ستائیشی سے لذت ملتی ہے۔ یہی وجہ ہے کے انسان اپنا عکس دوسرے لوگوں میں ڈھونڈتے ڈھونڈتے کسی شخص کی محبت میں گرفتار ہوجاتا ہے ۔ کیونکہ محبت ہمیشہ اس شخص سے ہوتی ہے جو ہمیں پسند ہو ۔ اور پسند ہمیشہ وہی ہوتا ہے جس کی عادات و اطوار ہمیں اپنی طرف راغب کریں ۔ اکثر دیکھنے میں آتا ہے ہمیں وہی لوگ زیادہ پسند آتے ہیں جن کے ذوق و شوق ہم سے مماثلت رکھتے ہوں ۔ ایک ویڈیو گیم کا شوقین بچہ ایک ویڈیو گیم کے شوقین بچے پسند کرے گا نہ کے ایسے بچے کو جو کھیل کھود میں دلچسپی رکھتا ہو ۔ فرائیڈ کے مطابق اسکی وجہ یہ ہے کے ہم حقیقت میں اپنے عکس کو دوسرے لوگوں میں تلاش کرتے ہیں اور یہی تلاش ہمیں دوسرے لوگوں سے قریب کرتی ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کے کسی شخص سے محبت دراصل اپنے آپ سے محبت ہوتی ھے اور کوئی شخص لاکھ ریاضتوں اور کوششوں کے باوجود اپنے اندر پائے جانی والی خودستائشی کی جبلت کا قلع قمع نہیں کر سکتا۔ بنیادی طور پر ہر شخص میں کسی نہ کسی حد تک نرگسی رجحانات اور میلانات ہوتے ہیں اسکا مطلب یہ نہیں کے سب ذہنی عارضے میں مبتلاء ہیں بلکہ اسکا معنی یہ ہے کے یہ ہر انسان میں پائے جانی والی مشترکہ جبلت ھے۔ حتیٰ کے شیشہ دیکھ کر خوش ہونا یا اپنی تصاویر دیکھ کر لذت و مسرت سے سرشار ہونا بھی نرگسیت کی ہلکی سی شکل ہے۔ جبکہ اس تحریک کی شدت شیزوفرینیا جیسی خطرناک بیماری میں تبدیل ہوسکتی ہے ۔ جس کے بعد انسان اپنی ذات کے اندرونی خوف و تشویش میں مبتلاء ہوجاتا ہے اور اسکا ناطہ دنیا و مافیہا سے منقطع ہوجاتا ھے